• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ممکن ہے تاریخ اس فیصلے کوکسی اور نگاہ سے دیکھے۔بے شک اتفاقیہ ہی سہی لیکن تمام فقہان ِ شہر یک زبان ہیں کہ پرویز مشرف کے کیس کا فیصلہ عجیب و غریب ہے۔

لاش کی تضحیک تک کےآرڈرز جاری کر دئیے گئے ہیں۔ اسلام کی عدالتی تاریخ میں بھی ایسی کوئی مثال موجودنہیں۔یورپ والے تو خیرموت کی سزاکوہی جائز نہیں سمجھتے۔

عوام کہتے ہیں اگر پرویز مشرف کو1999میں مارشل لا لگانے پر سزائے موت سنائی جاتی تو کوئی بات بھی تھی۔فاضل جج کا مسئلہ توعدلیہ کے خلاف لگائی گئی ایمرجنسی تھی۔یقیناً اس ایمرجنسی کے ساتھ سابقہ ایمرجنسی کو بھی جوڑا جا سکتا تھا مگرپی سی او پر حلف اٹھانے والے جج صاحبان بھی سزا میں برابر کے حصے دار قرار پاتے۔

میں حیران ہوں کہ ملک میں کئی بار مارشل لا لگایا گیا۔ہر مرتبہ عدالت معظمہ کے فاضل ارکان نے مارشل لا کو قانونی تحفظ فراہم کیا۔یہ ہماری تاریخ میں عدلیہ کا ایک ناقابل معافی جرم ہے۔ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی دی۔اور بھی کئی اختلافی فیصلے کئے۔

میں ذاتی طور پر فوج کے سیاسی کردار کا مخالف ہوں میرے نزدیک جمہوریت کی تباہی کے ذمہ دارصرف جرنیل نہیں پی سی او حلف اٹھانے والے جج بھی ہیں۔جنہوں نے ہر ڈکٹیٹر کو قانونی تحفظ فراہم کیا۔اس میں بحیثیت ادارہ فوج یا عدلیہ کا کوئی قصور نہیں مگر پرویز مشرف کا معاملہ تھوڑا سا مختلف ہے۔ 

یہاں پاکستانی تاریخ میں پہلی بار ایک جنرل اور ایک جج ایک دوسرے سے ٹکرا گئے۔قوم چیف جسٹس کے پیچھے کھڑی ہوگئی۔پرویز مشرف کو جانا پڑا۔عدلیہ حکومتی دبائو سے مکمل طور پر باہر نکل آئی۔بڑے بڑے تاریخ ساز فیصلے سامنے آئے۔

تین بار وزیراعظم بننے والی شخصیت کو جیل کی کال کوٹھڑی میں منتقل کردیا گیا۔نئے چیف جسٹس بھی انہی جج صاحبان میں شامل تھے جنہوں نے پانامہ کیس میں نوازشریف کو سزا سنائی۔پی سی او پر حلف اٹھانے سے انکار کیا۔دوسرے ججوں کے ساتھ نکال دئیے گئے۔ 

پیپلز پارٹی کا دور حکومت آیا توججوں کی بحالی کا سلسلہ شروع ہواتو بحال ہوگئے۔ جسٹس گلزار احمدسنہ 2011میں وہ سپریم کورٹ کے جج بنے اس وقت افتخار محمد چوہدری چیف جسٹس تھے۔اب دیکھتے ہیں کہ نئے چیف جسٹس پرویز مشرف کی سزاکے معاملے میں کیا کردار ادا کرتے ہیں۔ 

صدر پاکستان کے پاس رحم کی اپیل جمع کرائی جانے والی ہے۔ایک آدھ دن میں جمع ہوجائے گی مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ میں جب تک پرویز مشرف کی اپیل رجیکٹ نہیںہوتی کیا صدر پاکستان رحم کی اپیل سن سکتے ہیں یا نہیں ۔

اس وقت پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والی لیڈرشپ خاموش ہے۔صرف وہی لوگ اس فیصلے کے خلاف بول رہے ہیں جو پرویزمشرف کی ٹیم کا حصہ تھے اور اب عمران خان کی ٹیم کا حصہ ہیں۔محترمہ فردوس عاشق اعوان نے تو معززعدالت کے جج صاحب کی ذہنی حالت پر شک کا اظہار کیا ہے۔

یہ بھی یادرکھنے والی بات ہے کہ اسی جج نے ملٹری کورٹس سے سزا یافتہ 70 سے زیادہ افراد کی اپیلیں منظور کیں۔بحیثیت چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس وقار احمد سیٹھ سے ان کے کسی ذاتی دوست نے کہا کہ ملٹری کورٹس کے سزا یافتہ افراد کے حق میں مسلسل فیصلوں سے لگ رہا ہے کہ جیسے آپ شدت پسندوں کے حق میں ہوں تو انہوں نے کہا کہ عدالتیں واقعات اور دستیاب شہادتوں پر فیصلہ کرتی ہیں۔ت

مام ریکارڈ کا بغور جائزہ لیتی ہیں اور اس سب کو دیکھنے کے بعد ہی فیصلہ دیتی ہیں۔ویسے اس عجیب و غریب فیصلے کی مثال برطانوی تاریخ میں موجود ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ایک بار اسی کیس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھاکہ ”برطانیہ میں ڈکٹیٹر جنرل اولیور کرامویل نے ایک بار پارلیمنٹیرین کو پارلیمنٹ سے باہر پھینک دیا تھا یعنی مارشل لا لگا دیا تھا۔

اس کے اقتدار کے خاتمے کے بعد پارلیمنٹ نے اس پرغداری کا مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا، اسی دوران کرامویل مرگیا تو فیصلہ کیا گیا کہ اس کا ڈھانچہ عدالت میں پیش کیا جائے۔

سوال پیدا ہوا ڈھانچے سے یہ کیسے پوچھا جائے کہ جرم قبول کرتا ہے یا نہیں، فیصلہ ہوا ڈھانچے کی خاموشی سے یہ تاثر لیا جائے کہ ملزم گلٹی کہہ رہا ہے، عدالت نے ڈھانچے کو پھانسی پر لٹکا دیا۔

بے شک یہ برطانوی تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے کہ حکومت پر قبضہ کرنے کے جرم میں جنرل اولیورکرامویل کی لاش قبر نکالی گئی اورپھر اُس کے ڈھانچے کو لندن کے ایک چوک میں زنجیروں سے باندھ کر باقاعدہ علامتی طور پرپھانسی دی گئی۔

بعد میں میت کی باقیات کو تو دفنا دیا گیا مگر اس کی کھوپڑی چوبیس سال تک ویسٹ منسٹر ہال کے باہر ایک کھمبے پر لٹکتی رہی۔اُس کھوپڑی کے متعلق ایک انگریز شاعر نے کہا تھا’’یہ وہ کھوپڑی جس میں کبھی برف بھر جاتی ہے تو کبھی ہوائیں شور کرتی ہیں۔اس کھوپڑی سے گزرنے والی تیز ہوانے ہمیشہ یہی گیت گایا ہے۔جمہوریت کادشمن ملک و قوم کا دشمن ہے۔‘‘

یہ سر مختلف لوگوں کے پاس رہا۔ 1960 میں کہیں جا کر اسے دوبارہ دفنایا گیالیکن اس تاریخ ساز واقعہ کے بعد برطانیہ میں کبھی کسی جنرل نے مارشل لا لگانے کے متعلق سوچنا بھی گوارہ نہیں کیا۔دوسری طرف سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کھل کر کہہ دیا کہ خصوصی عدالت کے فیصلے کے بعد عدلیہ کے خلاف تضحیک آمیز مہم چلائی گئی ہے۔ 

سو ضروری ہے کہ ایک جج کا دل شیر کی طرح اور اعصاب فولاد کی طرح ہونے چاہئیں۔ویسے اداروں کا ٹکرائو کسی بھی ملک کےلئے بہت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ پہلے یہ ٹکرائو مقننہ اور عدلیہ کے درمیان نظر آتا رہا ہے، پہلی بارعدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ آمنے سامنے آگئے ہیں۔اللہ خیر کرے۔

تازہ ترین