• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنرل (ر) پرویز مشرف کو سزائے موت دینے کے خصوصی عدالت کے فیصلے پر کسی کو چاہے کتنا ہی اعتراض کیوں نہ ہو اور اس فیصلے پر عمل درآمد ہو یا نہ ہو مگر یہ فیصلہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے اور اس کے دور رس سیاسی اثرات مرتب ہوں گے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی کو آئین شکنی کا مرتکب قرار دے کر سزائے موت کا حکم دیا گیا ہے۔ خصوصی عدالت کے تفصیلی فیصلے میں بینچ کے ایک رکن جناب جسٹس وقار سیٹھ کی اس آبزرویشن پر سخت تنقید کی جارہی ہے، جس میں انہوں نے حکم دیا ہے کہ سزائے موت کے فیصلے پر عمل درآمد سے قبل اگر پرویز مشرف وفات پاجاتے ہیں تو ان کی لاش کو گھسیٹ کر لایا جائے اور اسلام آباد کے ڈی چوک پر تین دن تک لٹکایا جائے۔ تفصیلی فیصلے کی اس آبزرویشن سے پہلے مختصر فیصلے پر بھی پاک فوج کی طرف سے سخت ردعمل آیا تھا، جس میں واضح طور پر یہ تاثر موجود تھا کہ فوج کو یہ فیصلہ قبول نہیں ہے۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے بھی اس فیصلے کو مسترد کردیا تھا۔ اپوزیشن کی بہت سی سیاسی جماعتوں نے اس فیصلے کی تعریف کی اور اسے ایک تاریخی فیصلہ قرار دیا جبکہ کچھ سیاسی جماعتوں نے فوج اور پی ٹی آئی حکومت کے مؤقف کی تائید کی لیکن تفصیلی فیصلے میں جسٹس وقار سیٹھ کی آبزرویشن کے باعث فیصلے پر تنقید کرنے والوں کا بیانیہ زیادہ جارحانہ ہوگیا ہے اور فیصلے کی حمایت کرنے والے دفاعی پوزیشن پر چلے گئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس فیصلے کی مخالفت اور حمایت میں سیاسی صف بندی موجود ہے اور فیصلے کو سیاسی بنانے کی بعض حلقوں کی کوششوں سے ادارے بھی سیاست کی لپیٹ میں آرہے ہیں،خطرناک آئینی اور سیاسی بحران پیدا ہورہا ہے، جو اس پولرائزیشن کو مزید گہرا کرکے تصادم کی طرف لے جاسکتا ہے۔

ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ خصوصی عدالت کے فیصلے کی قانونی جزئیات کیا ہیں مگر اس معروضی حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ فوج کے ایک سابق سربراہ کو پاکستان کی ایک عدالت کی طرف سے سزائے موت دی گئی ہے اور پوری دنیا اس پر بحث کررہی ہے۔ پاکستان کے عوام کی طرح دنیا بھی اس فیصلے پر حیرت زدہ ہے کیونکہ تیسری دنیا کی عدالتوں میں اس طرح کے فیصلے شاذ ونادر ہی ہوتے ہیں۔ صرف 1996ء میں جنوبی کوریا میں ایسا فیصلہ آیا تھا، جب جنوبی کوریا کی فوج کے سابق سربراہ اور سابق صدر چن ڈوہوآن کو عدالت نے گوانگ جو قتل عام کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے سزائے موت سنائی تھی لیکن بعد ازاں اس وقت کے صدر کم یونگ سام نے ان کی سزا معاف کردی تھی۔ جنرل چن ڈوآن کی سزا کی معافی پر عالمی میڈیا نے البتہ یہ تبصرہ کیا تھا کہ یہ معافی فوج کے دبائو پر ہوئی۔ جنوبی کوریا کی عدالت کے فیصلے پر بھی دنیا میں یہی بحث چل نکلی تھی کہ کیا عدلیہ اور دیگر سویلین ادارے فوج سے زیادہ مضبوط ہوگئے ہیں اور کیا جمہوری عمل بغیر کسی مداخلت کے جاری رہے گا؟جنرل مشرف کیخلاف سنگین غداری کیس کے فیصلے سے جنوبی کوریا کے مقابلے میں دنیا بھر میں پاکستان کے اداروں سے متعلق زیادہ بحث ہورہی ہے۔ ایسی بحث، جو عام حالات میں نہیں ہونی چاہئے۔ اگرچہ دنیا کو حالات کا علم ہے لیکن ’’کچھ تو ہے، جس کی پردہ داری ہے‘‘ والا معاملہ نہیں رہا۔ ان حلقوں کو یہ بات سمجھنی چاہئےکہ پاکستان میں سیاسی پولرائزیشن بڑھ رہی ہے۔

پی ٹی آئی حکومت نے، جو جنرل پرویز مشرف کے خلاف مقدمے میں مدعی ہے، جناب جسٹس وقار سیٹھ کے خلاف ان کی آبزرویشن کی بنیاد پر ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت نے اپنی وہ پوزیشن واضح کردی ہے جو بوجوہ ابھی تک واضح نہیں تھی۔ اب تک یہ بات عیاں ہوچکی ہے کہ حکومت خصوصی عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد نہیں کرے گی۔عدالتوں کے فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنے کی روایت اگر ایک دفعہ پڑگئی تو اس کے ملک پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ بقول سابق وزیراعظم چوہدری شجاعت حسین اگر کسی جج کے خلاف فیصلہ آیا تو اس پر عمل درآمد کون کرائے گا؟ اس طرح کے دیگر سوالات کو بھی ذہن رکھنا چاہئے۔

فیصلے کے مخالف حلقوں کا بیانیہ بہت جارحانہ ہے اور فیصلے کے حامی حلقوں کے بیانیہ پر غالب ہے لیکن دونوں بیانیے پوری شدت کے ساتھ موجود ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ کس کا بیانیہ میڈیا پر زیادہ وقت اور جگہ لے رہا ہے۔ اس وقت مسئلہ ملک کو بڑھتی ہوئی پولیٹکل پولرائزیشن، انتشار اور اداروں کے ٹکرائو سے بچانا ہے۔ تمام لوگوں کو اس بات پر فوکس کرنا ہے۔ یہ جو کچھ ہوا ہے، یہ ہماری ماضی کی غلطیوں کا نتیجہ ہے۔ ایسا کبھی نہ کبھی تو ہونا تھا لیکن اب آگے ٹکرائو کے بغیر بڑھنا ہے۔ خصوصی عدالت کے اس فیصلے کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے آئین اور قانون کے سوا کوئی دوسرا راستہ ٹکرائو اور انتشار کی طرف لے جاسکتا ہے۔

ادائے خاص سے غالب ہوا ہے نکتہ سرا

صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لئے

تازہ ترین