• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

12؍ دسمبر 2019ء کو ہونے والے عام برطانوی انتخابات اس لحاظ سے اچھوتے اور منفرد تھے کہ یہ الیکشن صرف ایک بریگزٹ ایشو پر تین وزرائے اعظم کی ’قربانی‘ کے بعد ہو رہے تھے حالانکہ اگر برطانیہ کو یورپی یونین سے باہر نکلنے کا مسئلہ درپیش نہ ہوتا تو 2017ء کے بعد آئندہ الیکشن مئی 2022میں ہونا تھے، حالیہ انتخابات میں جہاں دائیں بازو کی حکمران کنزر ویٹو پارٹی کو 1987ء میں مارگریٹ تھیچر کے دور حکومت کے بعد ایک تاریخ ساز فتح حاصل ہوئی ہے تو کئی بار اقتدار میں رہنے والی بائیں بازو کی لیبر پارٹی کو بھی تقریباً چار دہائیوں بعد تاریخ ساز شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ کنزر ویٹو نے 364نشستیں حاصل کی ہیں جبکہ حکومت تشکیل دینے کے لئے کسی بھی سیاسی پارٹی کو کل 650میں سے 326نشستوں کی ضرورت ہوتی ہے، اصل میں برطانیہ کی سیاسی تاریخ میں یہ عدم استحکام بریگزٹ کے معاملہ پر ہی ہوا لیکن بالآخر ٹوری پارٹی کو حالیہ الیکشن میں سادہ اکثریت ملنے کے بعد قوی امید ہے کہ برطانوی وزیراعظم کی طرف سے الیکشن سے قبل اعلان کردہ تاریخ یعنی 31؍ جنوری تک ہر صورت بریگزٹ ہو جائے گا یعنی برطانیہ کا یورپی یونین سے مکمل انخلاء ممکن ہو گا، حالیہ الیکشن نے برطانیہ کی اس سیاسی روایت کو بھی توڑا ہے کہ یہاں الیکشن ہمیشہ موسم گرما میں اور مئی کی پہلی جمعرات کو ہوتے ہیں لیکن اس دفعہ یہ الیکشن دسمبر کی سخت سردی میں ہوئے لیکن اس کے باوجود یو کے بھر میں ووٹنگ کی شرح 65%سے زیادہ رہی ۔ اپوزیشن لیڈر جیری کوربن نے ان نتائج کو لیبر کے لئے ایک مایوس کن رات قرار دیتے ہوئے مستعفی ہونے کا اعلان کرتے کہا ہے کہ وہ آئندہ الیکشن میں لیبر پارٹی کی قیادت نہیں کریں گے۔

اب کلیدی سوال یہ ہے کہ لیبر کی اس مایوس کن رات سے ٹوریز کی نئی صبح سے برطانوی عوام کی فلاح و بہبود کی کیا کیا کرنیں پھوٹیں گی اس کا جواب متوقع طور پر آئندہ حکومت تشکیل دینے والی کنزرویٹو پارٹی کی لیڈر شپ کو دینا ہو گا کیونکہ عمومی تاثرہے کہ لیبر پارٹی کی پالیسیز عوام دوست ہوتی ہیں خصوصاً برطانیہ میں مقیم امیگرنٹس بھی زیادہ تر لیبر پارٹی کو سپورٹ کرتے ہیں اس کے برعکس ٹوریز کو طبقہ امراء اور مذہبی طبقے کی سپورٹ زیادہ ہوتی ہے۔ لیبر لیڈر جیری کوربن سوشلسٹ تھے سرمایہ داری نظام کے بڑے مخالف تھے، برطانوی ہائوس آف لارڈز کی تاحیات ممبر شپ اور بادشاہی سسٹم کو بھی ختم کرنے کی بات کرتے تھے وہ امریکہ کی طرف سے دنیا کے مختلف ممالک میں کی جانے والی مداخلت، مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر پر بھی کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرتے تھے یقیناً یہی وہ وجوہات تھیں جن کی وجہ سے برطانوی اسٹیبلشمنٹ کا ایک طاقتور ترین حلقہ اور اوپر ذکر کئے گئے تمام حلقے، انڈین اور اسرائیل کی پالیسیز اور مفادات کا تحفظ کرنے والے سبھی ادارے جیری کوربن کی فتح کو اپنی موت سمجھتے تھے۔

باوجود اس کے کہ لیبر اور جیری کی پالیسز عام آدمی کے سوشل بینیفٹ کا دفاع کرتی تھیں اور ہر ملک میں عام آدمی ہی آبادی کا غالب حصہ ہوتا ہے جو ووٹ کی طاقت رکھتا ہے لیکن آخر کیا ہوا کہ لیبر پارٹی اپنی گزشتہ الیکشن میں حاصل کردہ نشستوں میں سے بھی 60نشستیں کھو بیٹھی اور ٹوری پارٹی جسے بریگزٹ معاملہ پر بار بار ہزیمت اور شکست کا سامنا پارلیمنٹری ووٹنگ میں کرنا پڑا، اپنے تین وزراء اعظم تبدیل کرنا پڑے جس سے عوام کے اندر ٹوریز کے خلاف شدید ردعمل بھی پایا جاتا تھا لیکن جب الیکشن ہوئے تو ٹیبل ایسے ٹرن، ہوئے کہ ان ہوشربا انتخابی نتائج نے برطانوی عوام کو ششدر کر کے رکھ دیا ہے، اب بظاہر تو اس پر تاویلات یہ دی جا رہی ہیں کہ بریگزٹ کے طویل اور تھکا دینے والے عمل سے نالاں برطانوی عوام نے حالیہ انتخابات میں حصہ لیا تھا تاکہ آنے والی پارلیمنٹ بریگزٹ سے ہلکان ملک کو کسی واضح ڈگر پر ڈال سکے۔ گزشتہ ایک دہائی یا اس سے بھی پہلے سے ایک سوال برطانوی میڈیا کے توسط سے پبلک میں بھی زیر بحث رہتا ہے کہ آج کی دنیا میں برطانیہ کا کردار ایک بڑی طاقت کے طور پر ہے یا اب یہ ایک سطحی سی عالمی طاقت کے طور پر اپنا وجود بمشکل برقرار رکھے ہوئے ہے بلکہ سیدھا اور براہ راست سوال یہ کہ برطانیہ کس جانب دیکھے یورپی یونین یا امریکہ کی طرف؟ لہٰذا یہی وہ سوال تھا جس نے چند سال قبل برطانیہ میں بریگزٹ کا ڈول ڈالا چنانچہ اس کا صاف مطلب تو یہی نکلتا ہے کہ برطانیہ ڈسکرپشن رکھنے والے طاقتور حلقوں نے یہ فیصلہ کیا کہ یورپی یونین کے اتحاد سے نکل جانا چاہئے۔ تو کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ بریگزٹ کروانے اور پھر کنزرویٹو کو جتوانے میں بھی براہ راست امریکہ کا ہاتھ ہے؟ برطانیہ کی حکمران پارٹی اور اثر انداز ہونے والی قوتوں نے طاقتور میڈیا کے ساتھ مل کر لیبر پارٹی کے لئے مایوس کن رات اور ٹوری کے لئے نئی صبح کا بندوبست کیا ہے، سو سردست یہ ایک بیانیہ عام طور پر برطانوی عوام میں زیر بحث ہے۔ اب صورتحال یوں ہے کہ 31جنوری کو برطانیہ کے یورپی یونین سے باہر آ جانے کے بعد بھی برطانیہ میں فوری طور پر استحکام آنے کی امید نہیں ہے کیونکہ بہرحال ٹوری پارٹی کی پالیسیز کو عموماً عوام دوست نہیں سمجھا جاتا۔ برطانیہ میں کئی ماہرین سیاسیات و معاشیات آج بڑی سختی سے اپنی اس سوچ پر قائم ہیں کہ کنزرویٹو پارٹی یا بطور ایک ریاست اگر برطانیہ امریکہ کی تقلید میں اسی طرح آگے بڑھتا رہا جیسے آج اس نے اپنے اٹھائیس کے قریب اتحادیوں اور ہمسایوں کو چھوڑ کر امریکہ کا ساتھ دیا ہے تو برطانیہ کی رہی سہی طاقت کم ہو جائے گی اور ہم بطور ایک قوم اپنی ساکھ برقرار نہیں رکھ پائیں گے۔ ایک اہم سوال اور مسئلہ حالیہ الیکشن کے بعد یہ بھی نئی حکومت کو درپیش ہو گا کہ سکائش نیشنل پارٹی جو نہ صرف یورپی یونین سے نہ نکلنے کی حامی ہے بلکہ 2014ء کی طرح وہ ایک دفعہ پھر برطانیہ سے سکاٹ لینڈ کی علیحدگی کے لئے ریفرنڈم کروانا چاہتی ہے لہٰذا اب ٹوریز اور برطانیہ کے دیگر منصوبہ ساز ان مسائل سے کس طرح نبرد آزما ہوں گے یہ آنے والا وقت طے کرے گا۔

تازہ ترین