• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے حوالے سے اب یہ سوال بحث طلب نہیں کہ خارجی پالیسی کے چار بڑے محرکات، سیکورٹی، نظریہ، جغرافیہ اور اقتصادیات، میں سے سیکورٹی ہی ہماری اولین ترجیح ہے لیکن ہمارا جغرافیائی جائے وقوع جہاں بیش بہا اقتصادی فوائد کا حامل اور دیگر قومی مفادات کے تحفظ کا ضامن بنا اور بنا رہے گا، وہاں سرد جنگ کے چالیس سالوں میں پاکستان کا نظریہ ’’اسلامی‘‘ اور ’’جمہوریہ‘‘ بھی، ہر دو اعتبار سے خارجی امور پر خاصا حاوی رہا۔ تاہم ہماری ہوشیاری یہ رہی کہ ہم نے اس سے بالا ہو کر بھی اپنے بین الاقوامی اور علاقائی تعلقات نبھائے اور اس میں (اندرونِ ملک) ہماری جملہ متنازع حکومتیں شامل رہیں۔ گویا ملک کی فکر سب کو تھی، غدار کوئی بھی نہ تھا۔

ہماری آج کی کیفیت کچھ یوں ہے کہ سلامتی اور اقتصادی استحکام دو برابر کی قومی ضرورتیں بن گئی ہیں، تاہم تعلیمی اقتصادی حالت کا ختم ہو کر گڈگورننس سے مستحکم ہو جانا تو ممکن ہے، اب اس کی مانیٹرنگ بھی ہو رہی ہے اور میڈیا بیڈ گورننس کے درپے ہے۔ خوش قسمتی سے گڈ گورننس اب پاکستان کا مستقل سیاسی اور میڈیا ایجنڈا بن گیا ہے۔ کوئی سیاسی جماعت اپنے دورِ حکومت میں کتنی بھی بیڈ گورننس کی مرتکب کیوں نہ ہو، اپوزیشن بن کر وہ گورننس کے معیار پر کڑی نظر رکھے گی اور خامیوں پر شور و غوغا بھی کم نہ کرے گی، میڈیا میں جگہ بنانے کا یہ مستقل اہتمام ہو گیا ہے۔ سو، قومی معیشت بحال اور مستحکم ہو کر مسلسل توسیع و استحکام کے عمل میں آنا ممکن ہے۔ ایک ٹماٹر کے چڑھے نرخ پر دہائی نے افراطِ زر کو کم کرنے میں مدد دی ہے، آئی ایم ایف کے مطابق ملک میں افراطِ زر کا گراف گرنا شروع ہو گیا ہے۔ جہاں تک معاملہ سیکورٹی کے اولین قومی ترجیح ہونے کا ہے، یہ ہمارے دشمن ہمسائے کی منفی رویے کے باعث ہے۔ تاہم اس کے مقابل چین جیسے دوست کی دوستی، بھارت کی ہم سے ازلی دشمنی، بیرونی اثر کی کابل حکومتوں کا پاکستان مخالف ہونا، حتیٰ کہ ملک میں 35لاکھ افغان مہاجرین کی بدستور موجودگی، اور ماضی قریب میں افغانستان کو سوویت قبضے سے چھڑانے کے لئے عالمی سیاسی و نیم عسکری جدوجہد کے لئے بیس کیمپ بنے رہنے کی تاریخ کو بھلا کر افغان سرزمین کا پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال ہونا، پھر برسوں سے افغانستان میں پاکستان مخالف بیرونی عسکری و سیاسی موجودگی نے افغانستان کو پاکستان دشمنی میں بھارت کے برابر بلکہ اس سے بھی دو ہاتھ آگے نکل جانے کی چیلنجنگ صورت پیدا کر دی ہے اس کے مقابل افغان عوام پاکستان کی جانب قدرتی رجحانی اور ہر دو ہمسایہ ملکوں کے سماج کا گہرا مذہبی و ثقافتی رشتہ، افغان حکومتوں اور ان کے بیرونی آرکیٹیکٹس کے پاکستان مخالف گھڑی گھڑی محاذ آرائی کو پاکستان کے حق میں متوازن کرتا ہے۔ لیکن سیکورٹی کے تناظر میں اب اسلام آباد کبھی افغانستان کو نظر انداز نہیں کر سکے گا۔ کیونکہ افغان سرزمین کا مکمل طور پر ایک ہی حکومت (بیشتر کابل کی) کے زیر اثر و تابع ہونے کے امکانات معدوم ہیں۔ ایران سے ہمارے تعلقات کا اتار چڑھائو نجانے کب تک ایک تلخ حقیقت بنی رہے گی لیکن ہمیں اپنی آئینی نظریاتی اساس کے مطابق ’’عرب و عجم‘‘ سے اپنے تعلقات متوازن اور خوشگوار رکھنے ہیں۔ ایسے میں ہمیں چین سے ماسوائے معمولی آسانی سے مینیج ایبل اتار چڑھائو کے، ایک مستقل نوعیت کی تقویت حاصل ہے۔ افغانستان اور ایران کو تو آنے والے کئی سالوں تک کبھی آسانی سے تو کبھی مشکل سے مینیج کرتے ہوئے نبھانا ہی پڑے گی اور ہم جیسے کمزور اقتصادیات کے حامل اور دہشت گردی سے طویل جنگ لڑتے نئی نئی کامیابی حاصل کرنے والے ملک کے لئے یہ آسان تو نہیں، لیکن یہ ہمارے بڑے سفارتی اہداف میں سے ایک ہے۔

رہا معاملہ بھارت کا تو ’’مودی کا بھارت‘‘ بننے کے بعد سارے ابہام ختم ہو گئے۔ آنجہانی واجپائی کی کوئی اپنی ذاتی امن آشا تھیوری وقتی کام دکھا بھی جاتی تو آج وہ چکنا چور ہو چکی ہوتی۔ دوسری مرتبہ ہیوی مینڈیٹ لینے والی ہندو بنیاد پرست جماعت پاکستان و کشمیر بارے کیا مذموم عزائم رکھتی ہے، وہ اس نے اپنے ہٹلرانہ اقدامات سے ثابت کر دیا ہے، نہ صرف پاکستان بلکہ بھارتی مسلمانوں کے بارے میں بھی شہریت بل کی منظوری کے ردعمل نے پوری دنیا پر کھل کھلا کر واضح کر دیا کہ بھارت پاکستان کے متعلق کن اور کتنے مذموم عزائم کا حامل ہے۔

سوال یہ ہے کہ ہم بھارت سے درپیش سلامتی کے کسی بھی خطرے سے نمٹنے کیلئے کتنے تیار ہیں؟ جبکہ یہ امر کب کا واضح ہو چکا کہ اب جنگیں فقط افواج و ہتھیار سے نہیں لڑی جائیں گی نہ ہی اِن کی صلاحیت پر جیتی جائیں گی۔ اب ایک ریاست کی عسکری و سیاسی سمیت عوامی طاقت بھی جنگوں کا حتمی فیصلہ کرے گی۔ ہماری یہ صلاحیت کتنی ہے؟ اتنی بالکل نہیں جتنی اب الحمدللہ عسکری طاقت ہے، جس کے باعث ہم نے بھارتی جنگی جنون میں مبتلا حکومت کو اپنے گھنائونے ارادوں پر عملدرآمد سے روکا ہوا ہے کہ کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔ لیکن یہ جو اداروں کی حدود، ایک پیج پر، آئینی اختیارات سے تجاوز، اداروں کا ٹکرائو، داخلی دشمن، وفاق و صوبوں کے اختلافات، افسر شاہی کا جمود، پڑھے لکھے طبقات کا ٹرائیبل اسٹائل ٹکرائو، تشویشناک اکنامک گیپس قانون کی حکمرانی جیسی اصطلاحات و الفاظ کی ہمارے قومی سیاسی ابلاغ میں بھرمار ہے یہ ہمارے داخلی سیاسی انتشار کا بلنک کرتا الارمنگ سگنل نہیں؟ اگرچہ ایک پیج پر ہونا اور قانون کی حکمرانی معنی کے اعتبار سے مثبت ہے لیکن اِن کا خبر و تجزیوں میں مرکز و محور بن جانا یا بار بار دہرائے جانے کا مطلب ہے کہ ان کا فقدان ہے۔ ایسے میں لازم ہو گیا ہے کہ ملک میں ہنگامی بنیاد پر Intra Conflict Resolution (داخلی تنازعات سے نمٹنے) کا کوئی نظام فوری طور پر تجویز کیا جائے جو ایک قومی مکالمے اور عام تجاویز کی طلبی سے ممکن ہے، اس کے ذریعے سفارشات و میکرنزم تجویز ہوں اور اس پر قومی اتفاق کی راہ تلاش کی جائے، اسے آئینی و قانونی بنیاد فراہم کی جائے، پالیسی اور فیصلوں اور نفاذ کا کوئی واضح اور قابل قبول روڈ میپ تیار ہو تاکہ ہمارے چھوٹے اور بڑے جھگڑے تشویشناک داخلی تنازعات تک نہ بڑھ جائیں۔ سوال یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟ ناچیز کی رائے میں سب پارلیمانی جماعتوں کے سیاسی دانشور اپنی مدد آپ کے تحت پارلیمان اور سیاست سے باہر کے سیاسی اذہان کے دانشوروں اور مختلف متعلقہ شعبوں کے ماہرین کی مدد سے کوئی مفصل ڈاکیومنٹ تیار کریں جسے قوم کے سامنے حتمی شکل دینے کے لئے سامنے لایا جائے۔

تازہ ترین