• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی (پی آئی سی) کے افسوسناک واقعہ پر پورے ملک میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ ہر مکتب ِ فکر نے اس واقعے پر ناصرف اظہارِ افسوس کیا ہے بلکہ مطالبہ کیا ہے کہ ایسے اقدامات کیے جائیں کہ مستقبل میں ایسے واقعات رونما نہ ہوں۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے بھی اس واقعے کی انکوائری کا حکم دیا۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار نے کہا کہ اسپتالوں، ڈاکٹروں اور عملے کے تحفظ کے لئے قانون سازی کریں گے۔ ہیلتھ پروفیشنلز سیکورٹی بل کو کابینہ کے آئندہ اجلاس میں پیش کیا جائے گا اور قانون سازی سے متعلقہ امور کو جلد نمٹایا جائے گا۔پچھلے بیس برس سے ملک میں احتجاج کی ایک عجیب روایت چل پڑی ہے، احتجاج کے ساتھ توڑ پھوڑ اور تشدد کے واقعات بھی ہونے لگے ہیں، احتجاج کسی ادارے یا چند افراد کے خلاف ہوتا ہے جس میں عام شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو بھی نذرِ آتش اور توڑ پھوڑ دیا جاتا ہے۔ اسپتالوں میں ہڑتال کی روایت بھی کافی پرانی ہو چکی ہے لیکن ہڑتال کے دوران کام نہ کرنا، مریضوں کو علاج و معالجے کی سہولت فراہم نہ کرنا، ایمرجنسی بند کرنا کوئی انصاف نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لازمی سروس کرنے والے افراد کو مکمل طور پر سیکورٹی ملنی چاہئے اور ہمارے ہاں تو پچھلے کچھ برس سے اس عجیب روایت نے جنم لے لیا ہے کہ اگر کسی مریض، زخمی کی اللہ نہ کرے جان چلی جاتی ہے تو مریض کے لواحقین ڈاکٹروں، پیرا میڈیکل اسٹاف اور نرسروں کی پٹائی شروع کر دیتے ہیں۔ توڑ پھوڑ اور اسپتال کے نظام کو درہم برہم کر دیتے ہیں۔ پی آئی سی کے حالیہ واقعہ نے کئی سوالیہ نشان چھوڑ دیے ہیں، ہماری سوسائٹی کی اخلاقی گراوٹ کا یہ عالم ہے کہ ہم کسی کی بات سننے کو تیار نہیں۔ برداشت کا مادہ بالکل ختم ہو چکا ہے، ہم ذرا ذرا سی بات پر مار پیٹ پر اتر آتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ لاہور بار کے صدر کے بقول وکلا ڈیڑھ گھنٹہ بدترین احتجاج کرتے رہے اور توڑ پھوڑ وکلا نے ہی کی، پوری دنیا نے وہ وڈیوز دیکھی ہیں اب اس پر مزید کیا تبصرہ کریں۔

اسپتالوں میں ایک مدت سے یہ ہو رہا ہے، کبھی ڈاکٹرز کو مریضوں کے لواحقین مارتے ہیں اور کبھی ڈاکٹرز مریضوں کے لواحقین سے الجھتے ہیں۔ پھر اس لڑائی جھگڑے میں اور افراد بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ کبھی پیرا میڈیکل اسٹاف اور نرسوں سے مریضوں کا جھگڑا ہو جاتا ہے۔ اب پنجاب حکومت بہت اچھا قدم اٹھا رہی ہے کہ وہ ہیلتھ پروفیشنلز سیکورٹی بل لا رہی ہے مگر یہ بل صرف پنجاب تک محدود کیوں؟ پاکستان کے باقی تمام صوبوں میں بھی اس نوعیت کا بل لانے کی ضرورت ہے، کیونکہ کراچی میں بھی ڈاکٹروں کے مریضوں کے لواحقین کے ساتھ کئی مرتبہ مار پیٹ کے واقعات ہو چکے ہیں۔ ایسا قانون تو پورے ملک میں لانے کی ضرورت ہے۔ حکومت، ڈاکٹروں، اسپتال اور عملے کی سیکورٹی کے لئے تو بل لا رہی ہے مگر مریضوں کے تحفظ کے لئے کیا اقدامات کر رہی ہے؟ مثلاً اگر ایک ڈاکٹر مریض کو نہیں دیکھتا یا مریض کا درست علاج نہیں کرتا تو ایسی صورت میں مریض کو کون تحفظ فراہم کرے گا؟ دوسرے پرائیویٹ ڈاکٹروں کی فیسیں، نجی اسپتالوں کی فیسوں کا تعین کون کرے گا؟ لاہور میں ایک ایسے ڈاکٹر بھی ہیں جو مریض کو صرف پانچ منٹ دیکھتے ہیں اور فیس پانچ ہزار روپے لیتے ہیں۔ بیشمار ڈاکٹرز اب گھڑی دیکھ کر مریض کی بات سنتے ہیں، اس شہر میں ایک ڈاکٹر 2ہزار روپے فیس لے رہا ہے اور ایک 5ہزار، آخر پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کی یہ ذمہ داری نہیں کہ وہ مریضوں کا بھی تحفظ کرے؟ حکومت ضرور ڈاکٹروں اور اسپتال کے عملے کے لئے تحفظ بل لائے مگر سوال یہ ہے کہ مریضوں کے تحفظ کے لئے کون سا بل ہے۔

حکومت کو چاہئے کہ وہ مریضوں کے مسائل اور ان کی مشکلات کو دور کرنے کے لئے اس بل میں ایسی کوئی شق رکھے۔ اسپتالوں میں شام کے وقت پروفیسرز، ایسوسی ایٹ پروفیسرز اور اسسٹنٹ پروفیسرز کے رائونڈ کو یقینی بنائے۔ میڈیکل پروفیشن سے تعلق رکھنے والوں اور مریضوں کو یہ توقع تھی کہ پنجاب کی وزیر صحت جو خود ڈاکٹر ہیں، کے آنے کے بعد ڈاکٹروں اور مریضوں کے مسائل حل ہو جائیں گے مگر ایسا نہیں ہو سکا۔ وزیر صحت کو چاہئے کہ وہ ہفتے میں ایک مرتبہ سرکاری اسپتالوں کے باہر کھلی کچہری لگائیں، انہیں پنجاب کے چھوٹے چھوٹے اور پسماندہ علاقوں میں قائم سرکاری اسپتالوں میں بھی جانا چاہئے۔ سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کے ساتھ آئے دن کے جھگڑے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سرکاری اسپتالوں پر مریضوں کا ناقابل برداشت دبائو ہے، ایک ایک ڈاکٹر سو سو مریضوں کو آئوٹ دوڑ میں دیکھ رہا ہے، ایک ایک نرس بیس بیس بستروں کی نگہداشت پر مامور ہے۔

سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹروں کے ڈیوٹی اوقات بہت زیادہ ہیں جونیئر ڈاکٹروں پر کام کا دبائو بہت زیادہ ہے، اس کے لئے ضروری ہے کہ حکومت ڈاکٹروں اور نرسوں کے ڈیوٹی اوقات کسی صورت بھی آٹھ گھنٹے سے زیادہ نہ رکھے۔ سینئر ڈاکٹرز، پروفیسر، ایسوسی ایٹ پروفیسرز اور اسسٹنٹ پروفیسر تو صبح بارہ، ایک بجے تک اسپتالوں سے چلے جاتے ہیں اس کے بعد ایمرجنسی اور اِن ڈور کے مریض ہائوس آفیسر، ایم اوز، رجسٹرارز اور سینئر رجسٹرارز کے سپرد ہوتے ہیں جبکہ ایمرجنسی میں بعض اوقات اتنے سیریس مریض آتے ہیں جنہیں بعض اوقات رجسٹرارز بھی نہیں سنبھال سکتے لہٰذا ایسا نظام لایا جائے کہ پروفیسر لیول کے ڈاکٹروں کا سرکاری اسپتالوں سے مستحکم رابطہ ہو تاکہ مریضوں کو بھی علاج کے معاملے میں تحفظ کا احساس ہو۔ہیلتھ پروفیشنلز سیکورٹی بل لانے سے قبل حکومت کو چاہئے کہ ڈاکٹروں، مریضوں، نرسوں، پیرا میڈیکل اسٹاف اور سول سوسائٹی کے لوگوں سے سفارشات لے تاکہ بل میں کوئی کمی نہ رہ جائے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ مریضوں کو علاج معالجے کی بہترین سہولتیں حاصل ہوں اور انہیں بروقت ادویات ملیں۔

تازہ ترین