• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دسمبر بڑا ستمگر ہے، وقت گزرتے پتا نہیں لگتا، مجھے وہ شام نہیں بھولتی جب میرے محسن اور مہربان سید انور قدوائی نے کہا تھا اب تو اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن لانا ہی پڑے گا۔ جناب مرشد ’’سید سرفراز شاہ کے حضور‘‘ کتاب کے لئے قدوائی صاحب نے بڑی ریاضت کی تھی اور سید سرفراز شاہ بھی میرے دوست سید انور قدوائی کا بہت خیال کرتے تھے اور میرا تعارف بھی سید سرفراز شاہ صاحب سے جناب قدوائی نے ہی کروایا تھا۔ مجھے شہر میں صاحب علم اور صاحب کرامات بابوں کی تلاش رہتی تھی، ایک دن سید قدوائی فرمانے لگے کبھی شاہ جی سے بھی ملے ہو؟ میں اپنی کم علمی کے باعث چپ ہو رہا، قدوائی صاحب کے چہرے پر ایک مسکان سی آئی۔ میاں لاہور میں رہتے ہو اور سید سرفراز شاہ کے آستانے کا پتا نہیں؟ اگلی دفعہ جب تم اقبال ٹائون آئو تو مجھے بتانا، میں حضور قبلہ سے ملاقات کرانے کی کوشش کروں گا۔

پھر چند دن بعد حکم ملا کہ ہفتہ کی صبح کو ہم شاہ صاحب سے ملنے جا رہے ہیں،، میں بھی شاد ہوا کہ مجھے بھی صاحب کمال سے ملنے کا وقت ملے گا۔ پھر قدوائی صاحب کی صحبت میں کتنا عرصہ جناب سرفراز شاہ کی مجلس میں جانے اور ارشادات سے مستفیض ہونے کا موقع ملا۔ پھر انہی دنوں ہم دونوں الیکشن 2013ء پر ایک کتاب مرتب کر رہے تھے۔ 2013ء کے الیکشن میں جو کچھ ہوا، کیسے ہوا، وہ سب اس کتاب میں ہے۔ اس کتاب کی دھوم اس وقت مچی جب چار حلقوں کو کھولنے کا مطالبہ نواز شریف سرکار نے مان لیا اور اعلیٰ عدلیہ نے بھی کتاب کو اہمیت اور حیثیت دی۔ ایک دن خبر ملی کہ کتاب کے حوالے سے کمیشن ہم لوگوں سے ملنا چاہتا ہے۔ قدوائی صاحب سے ذکر ہوا تو کہنے لگے ہمارا کیا کام، کتاب میں سب کچھ ہے۔ سو بات ٹل گئی۔ ذکر ہو رہا تھا مرشد جناب سرفراز شاہ صاحب کی محفلوں کا اور کتاب کا، ’’سرفراز شاہ کے حضور‘‘ کتاب ادارہ جنگ کے دفتر سے صاحب ذوق لوگوں کو اعزازی طور پر تقسیم کی گئی اور کتاب چند ہی ہفتوں کےبعد آئوٹ آف اسٹاک ہو گئی۔پھر ایک دن جناب قدوائی صاحب نے سرفراز شاہ صاحب سے کتاب کی دوبارہ اشاعت کی اجازت مانگی۔ حضرت نے اجازت دی اور فرمایا کہ اب میں بھی آپ کا حصہ دار ہوں۔ قدوائی صاحب بہت خوش تھے وہ اس بار کتاب کو نئے روپ میں دیکھنا چاہتے تھے۔ اس زمانہ میں قدوائی صاحب دفتر کے معاملات کے حوالے سے کچھ تشویش کا شکار تھے۔ ان کی شاہ خرچی میں اضافہ میرے لئے حیران کن تھا، میں نے ایک دن پوچھ لیا تو کہنے لگے آپ تو ضرورت مند نہیں لگتے۔ میاں رب ضرورت مندوں کے لئے ہمیں اور آپ کو استعمال کرتا ہے، پھر بولے، نہیں بلکہ وہ ہماری ڈیوٹی لگاتا ہے اور ہمارا کام رب کی لگائی ڈیوٹی کو پورا کرنا ہے۔ پھر کتاب کے ٹائٹل کے لئے ایک بات پر کہنے لگے، کتاب حضور شاہ صاحب کے حوالہ سے خوبصورت ہونی چاہئے اور مجھے پابند کیا کہ ہفتہ کو اس پر حضور سے بات کریں گے۔ یہ بات کہنے کے بعد سوچنے لگے اور بولے میاں یہ زندگی بے بندگی اگر ہو تو ایسی زندگی کا مزہ کوئی نہیں۔اگلے دن شام کو امان قدوائی کا فون آیا تو میں حیران تھا، فون سنا تو یوں لگا کہ زندگی کتنی بے مروت ہے۔ میرے مہربان سید انور قدوائی مختصر سی علالت کے بعد ابدی زندگی کے لئے روانہ ہو چکے تھے۔ ان کی اچانک رحلت نے بہت بے چین اور بے کل کیا اور آج بھی، ہر ہفتے کو خیال آتا ہے کہ مجھے سید قدوائی کے ساتھ حضور سرفراز شاہ کے ہاں جانا ہے۔ جناب سید انور قدوائی کی وجہ سے جناب سرفراز شاہ نے جو توجہ کی اور خیال رکھا، وہ رب کی ایک نعمت سے کم نہیں۔ اتنے سال گزر گئے مگر قدوائی صاحب کی صحبت کا خمار اترتا ہی نہیں۔ ابھی چند دن پہلے جب امان قدوائی ڈپٹی کمشنر چنیوٹ تھا تو معلوم ہوا کہ وہ اور چند دوسرے احباب قدوائی صاحب کی علمی اور صحافتی خدمات کے سلسلے میں ایک کتاب مرتب کرنے کا کام کر رہے ہیں۔ قدوائی صاحب بنیادی طور پر رپورٹر تھے اور وہ بھی ایسے سیاسی رپورٹر کے سیاستدان ان سے رابطہ کرکے خبر بنواتے تھے۔

مجھے ان کے تعلقات کا اندازہ تھا وہ نواز شریف اور شہباز شریف سے خصوصی تعلق رکھتے تھے اور میاں برادران ان کی رائے کو بہت اہمیت دیتے تھے، ایسے ہی تعلقات ان کے چوہدری برادران سے بھی تھے اور پیر پگاڑا سے ان کی رسم و راہ ذاتی نوعیت کی تھی۔ وہ پاکستان کی سیاست پر مستند انسائیکلوپیڈیا تھے۔ بھٹو صاحب کا زمانہ ہو کہ ضیاء الحق کا، اور بعد میں میاں نواز شریف کا یا بینظیر کا۔ ان سے کوئی بھی سیاسی گوشہ چھپا نہ تھا۔ جب میاں نواز شریف کے خلاف عمران خان کا دھرنا تھا تو ایک دن اسحاق ڈار کو کہنے لگے، میاں نواز شریف کو حضرت داتا گنج بخشؒ کی دہلیز پر لیجانے کا سبب کرو، معاملہ ٹھیک ہو جائے گا۔ مگر میاں صاحبان کو اس کی توفیق ہی نہ ہوئی۔

اب ’’جناب سرفراز شاہ کے حضور‘‘ کتاب کا دوسرا ایڈیشن تیار ہو چکا ہے اگر کسی صاحب ذوق کو کتاب کی ضرورت ہو تو وہ روزنامہ جنگ لاہور سے رابطہ قائم کر سکتا ہے ۔جناب انور قدوائی کی برسی کے موقع پر 24دسمبر کو روزنامہ جنگ لاہور کے دفتر سے کتاب مفت حاصل کی جا سکتی ہے۔ یہ سید انور قدوائی کے حضور ایک نذرانہ ہے۔ اگرچہ سید انور قدوائی اب اس دنیا میں ہمارے ساتھ نہیں مگر ان کی باتیں اور اصول بندگی ہمارے لئے نشان راہ ہیں ۔میں ان سطور کی اشاعت کے وقت ملک سے باہر ہوں گا اور برسی کی دعا میں شرکت نہیں کر سکوں گا۔ سید انور قدوائی کی نذر بس یہ ؎

تو نے دیکھا ہے صحرا میں ایک درویش

تو نے درویشی میں ایک صحرا نہیں دیکھا

تازہ ترین