• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ و یورپ نے افغان طالبان سے مذاکرات کا دروازہ کھول کر پاکستان کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے کہ جائے ماندن نہ پائے رفتن، اور تو اور اب پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، ایم کیو ایم، تحریک جعفریہ، محمود خان اچکزئی کی پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور حاصل بزنجو کی نیشنل پارٹی بھی طالبان سے مذاکرات، ڈرون حملوں اور فوجی آپریشنز کی مخالفت کر رہی ہیں۔ بدلتا ہے رنگ آسمان کیسے کیسے؟ مگر میرے خیال میں یہی دانش مندی ہے۔
عمران خان کا موقف بجا کہ حکومت اور اسمبلیوں کی تحلیل سے بارہ چودہ دن قبل کانفرنس بلانے کا فائدہ؟ یہ قوم کو بے وقوف بنانے کی چال ہے مگر صبح کا بھولا شام کو گھر آ جائے تو اسے بھولا نہیں کہتے۔ مولانا فضل الرحمن اور سید منور حسن کی طرح عمران خان کو خوش ہونا چاہئے کہ اس کے موقف پر قومی اتفاق رائے سامنے آیا۔
آئین، قانون اور رٹ آف گورنمنٹ کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں کہ 2004ءسے اب تک طاقت کا استعمال مفید ثابت نہیں ہوا، امریکہ کی خواہش پر جنرل پرویز مشرف نے قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کی جو آگ بھڑکائی وہ پورے ملک کو لپیٹ میں لے چکی ہے اور ریاستی مشینری مقابلہ کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔ جنرل (ر) شاہد عزیزکی کتاب میں تفصیل موجود ہے کہ کس طرح امریکہ نے القاعدہ اور طالبان کو افغانستان سے پاکستان میں دھکیلا اور پاک فوج کو مگرمچھوں کی تلاش کے نام پر تاریک راہوں کے سفر پر مجبور کیا۔ قبائلی علاقوں میں پاکستانی آئین اور قانون کی عملداری کبھی رہی نہیں یہاں رٹ آف گورنمنٹ کے بجائے جرگوں اور پولیٹیکل ایجنٹوں کے ذریعے کام چلتا رہا مگر اب امین فہیم جیسے سیاستدانوں اور بعض دانشوروں کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگے ہیں، سوال یہ ہے کہ اگر طالبان پیشگی شرائط تسلیم کر لیں تو پھر جھگڑا کس بات پر اور مذاکرات کی ضرورت کیا؟
مذاکرات سے قبل دو طرفہ سیز فائر کی شرط البتہ معقول ہے، فوج حکومتی احکامات کی پابند ہے تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے کارروائیاں روکنے کی ضمانت کون دے گا اور خلاف ورزی کی صورت میں مذاکرات کا عمل کس طرح آگے بڑھے گا؟ سوچنے کی بات یہ ہے؟ غالباً اسی بناءپر فوج اس عمل سے لاتعلق ہے بلکہ کس قدر پریشان، اگر جملہ سیاستدانوں اور مذہبی رہنماﺅں نے مذاکرات پر اتفاق کر لیا ہے اور گرینڈ جرگہ کو مذاکرات کا اختیار دے دیا ہے تو ان فوجی جوانوں اور افسروں کا کیا بنے گا جو اب بھی تیراہ اور دیگر علاقوں میں آپریشن کر رہے ہیں کیا وہ ابہام کا شکار نہیں ہوں گے۔ آپریشن کے جواز اور عدم جواز پر بحث شروع ہونے کا خدشہ نہیں اور فوجی قیادت کی شمولیت کے بغیر یہ عمل کامیابی سے ہمکنار ہو سکتا ہے؟
مذاکرات ہماری مجبوری ہیں اور دانش مندی کا تقاضا بھی، دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ نے نیوکلیئر اسلامی ریاست کو معاشی زبوں حالی، اندرونی عدم استحکام، داخلی تنازعات اور سیاسی آپا دھاپی کے علاوہ بے لگام کرپشن کے سبب مرحوم سوویت یونین کی سطح پر لا کھڑا کیا ہے جبکہ فوج مشرقی و مغربی سرحدوں کے ساتھ ساتھ اندرون ملک القاعدہ، طالبان، لشکر جھنگوی، بلوچ لبریشن آرمی اور دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیوں سے نبرد آزما ہے لیکن حکمران اور سیاستدان مضبوط عزم و ارادے، فعال انتظامی ڈھانچے اور پائیدار معیشت کے ذریعے اس کی پشت پناہی کرنے کے بجائے الزام تراشی میں مصروف نظر آتے ہیں۔ ایسی صورت میں مذاکرات کے بغیر چارہ نہیں مگر بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا اور اس کی کامیابی کا کس قدر امکان ہے؟ سب سے اہم سوال یہ کہ آیا یہ موزوں وقت ہے؟ کیا اس وقت مذاکرات کی بات کرکے سیاسی و مذہبی قیادت نے قائدین کو یہ کہنے کا موقع نہیں دیا کہ وہ صرف اپنے جلسے جلوسوں اور امیدواروں کو طالبان کے حملوں سے محفوظ رکھنے کی سعی کر رہے ہیں اور جونہی انتخابی عمل بخیر و خوبی پایہ تکمیل کو پہنچا وہ ساری قراردادیں، سارے اعلامیے بھول کر حکمرانی کے کھیل میں مگن ہو جائیں گے، جو ان کا وطیرہ ہے۔
موجودہ نگران اور منتخب حکومت اس وقت تک مذاکرات کے عمل کو کامیابی سے ہمکنار نہیں کر سکتی جب تک کمزور ملکی معیشت کی بنا پر وہ امریکہ اور اس کے آلہ کار و گماشتہ عالمی مالیاتی اداروں کی مرہون منت اور باجگزار ہے، امریکہ نے شکئی معاہدے پر ڈرون حملہ کرکے دہشت گردی کا دائرہ وسیع کیا اب بھی اگر اسے مذاکرات پسند نہ آئے تو وہ باآسانی سبوتاژ کر سکتا ہے جبکہ ہمارے سیاستدانوں کے علاوہ فوجی قیادت کے سر میں بروقت انتخابات کا سودا سمایا ہے۔ اگر نگران حکومت اے پی سی کے اعلامیہ کی روشنی میں طالبان کو Engage نہ کر پائی، فوج کا کوئی اینی شیٹو نہ لیا اور وہ سرحدوں کے اندر باہر کئی محاذوں پر الجھی رہی تو حکومت اور اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد کوئٹہ اور کراچی جیسے واقعات میں اضافے کا شدید خطرہ ہے۔ صورتحال بہت زیادہ خراب اور قیمتی جانیں ضائع ہو سکتی ہیں، ایسی صورت میں ہماری ترجیح ریاست ہو گی یا سیاست؟ نگران حکومت حلف کی پاسداری کرے گی یا سیاستدانوں کے کئے گئے وعدوں کی؟
روحانی سکالر سید سرفراز شاہ صاحب کبھی کبھی شمال میں کشت و خون کی بات کیا کرتے ہیں کیا خدانخواستہ ہم اس خونی سیلاب کو دعوت تو نہیں دے رہے؟ طالبان سے مذاکرات پر اتفاق رائے دانش مندی مگر کچھ تقاضے اور بھی ہیں۔
تازہ ترین