• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یادش بخیر! ایک ہوتے تھے اپنے ڈاکٹر محبوب الحق صاحب!
پاکستان کے پہلے ڈکٹیٹر جنرل ایوب کے دور حکومت میں، پلاننگ کمیشن کے چیف اکانومسٹ تھے۔ ان دنوں پاکستان ترقی پذیر ممالک کے لئے ایک مثال بنا ہوا تھا۔ پاکستان میں ترقی کی شرح نمو کی پوری دنیا میں مثال دی جاتی تھی۔ پانچ سالہ منصوبوں کی ترقی پذیر ممالک نقل کیا کرتے تھے!
انہی ڈاکٹر محبوب الحق نے 1965ءمیں ایک تاریخی پریس کانفرنس کی اور کہا کہ ”پاکستان میں ترقی کا یہ ماڈل غریب غرباءکو ترقی کے ثمرات سے محروم کر رہا ہے۔ پاکستان کے 22 خاندان ملک کے صنعتی و مالیاتی اثاثوں پر قابض ہو چکے ہیں۔ ملک کے 80فیصد صنعتی اثاثے، 80 فیصد بنک اور 72 فیصد انشورنس کے ادارے، ان 22خاندانوں کی ملکیت ہیں۔ اپنے ان ”ہوش ربا“ انکشافات کے باوجود ڈاکٹر محبوب الحق نے جنرل ایوب کی نوکری جاری رکھی اور پھر جنرل یحییٰ خان کی بھی! 1970ءمیں پاکستان کے دو لخت ہونے سے کچھ قبل انہوں نے پاکستان چھوڑ دیا اور عالمی بنک کی نوکری اختیار کر لی!
ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور اقتدار میں دوبار ڈاکٹر محبوب الحق کو پاکستان آ کر اپنی حکومت میں شامل ہونے کی دعوت دی مگر ڈاکٹر محبوب الحق صاحب کٹڑ Capitilist(سرمایہ دارانہ نظام کے حامی) اور بھٹو صاحب So called Socialist، اس نظریاتی تقسیم نے دونوں کو ایک نہ ہونے دیا۔ بھٹو صاحب کو پھانسی پر لٹکانے کے بعد، جنرل ضیا الحق نے ڈاکٹر محبوب الحق کو پاکستان آنے کی دعوت دی تو وہ بخوشی تشریف لائے اور وزارت خزانہ و اقتصادی امور کو سنبھال لیا۔
غالباً 1985ءکا سالانہ بجٹ تھا، جو ڈاکٹر محبوب الحق نے وزیر خزانہ کی حیثیت سے پیش کیا۔ اس بجٹ میں پہلی بار پاکستان کو IMF کے شکنجے میں دیا گیا۔ IMF کی شرائط کے تحت ڈاکٹر محبوب الحق نے اپنی بجٹ تقریر میں یہ لازمی قرار دیا کہ 50ہزار روپے سے زیادہ کسی رقم کا لین دین نقد ہر گز نہیں ہو گا صرف بنک چیک کی شکل میں ہو گا۔ مقصد اس اقدام کا یہ تھا کہ ملک میں کالے دھن کا خاتمہ ہو اور سب کی جمع پونجی کا اندراج حکومت کے بہی کھاتوں میں ہو سکے!
مگر ہوا کیا؟
تاجر پیشہ افراد ڈٹ گئے اور حکومت کی وہ بھد اڑائی کہ اسے اپنا تھوکا ہوا خود ہی چاٹنا پڑا اور ڈاکٹر محبوب الحق نے معیشت کو White کرنے کے لئے اپنا انقلابی حکم واپس لے لیا!!
مجھے ڈاکٹر محبوب الحق کی یاد ٹی وی پر ایک خبر سن کر آئی۔ میں ساری رات یہ سوچتا رہا کہ جب حکومتوں میں اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کرانے کی سکت نہیں ہوتی تو پھر وہ فیصلے ہی کیوں کرتی ہیں، اپنا تھوکا ہوا بار بار چاٹنے پر کیوں مجبور ہوتی ہیں! خبر کیا تھی آپ بھی پڑھ لیجئے! تفصیل اخبارات میں بھی موجود ہے۔
اسی ماہ رخصت ہونے والے وزیر خزانہ حفیظ شیخ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ملک میں جو شخص بھی نئی کار خریدے گا، اسے نیشنل ٹیکس نمبر (NTN) کا سرٹیفکیٹ بھی دینا ہو گا۔ اس فیصلے کا مقصد ان لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا تھا جو گاڑیاں تو خریدتے ہیں۔
مگر ٹیکس نہیں دیتے مستند اعدادو شمار کے مطابق ملک میں نئی کاروں کی فروخت (اس میں بس، ٹرک، جیپ اور پک اپ شامل نہیں) اندازہ سوا لاکھ کے لگ بھگ ہے! ادھر ایف بی آر کے اعدادوشمار یہ کہتے ہیں کہ 30 لاکھ لوگ ٹیکس نہیں دیتے۔ یوں اگر کاروں کی فروخت پر ٹیکس قوانین سختی سے لاگو کر دیئے جائیںتو چند برسوں میں ہر کوئی ٹیکس نیٹ میں آنے پر مجبور ہو گا۔
مگر ہوا کیا؟
حفیظ شیخ کی رخصتی کے بعد نئے وزیر خزانہ نے اپنے پیش رو کا تھوکا ہوا چاٹ لیا اور کارروں کی فروخت کو NTN کی پابندی سے آزاد کر دیا۔
اس سے قبل بھی حکومت نے اپنے ہی ایک فیصلے کو بدل کر تھوکا ہوا چاٹا جب پرانی درآمدی کاروں کی عمر 5 سال سے گھٹا کر تین سال کر دی۔ ایک شائع شدہ رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے ایک ایم این اے سردار ایاز صادق کے بقول اس تھوکے ہوئے کو چاٹنے کی قیمت 97 کروڑ روپے تھی۔ یہ رقم کس جیب میں گئی؟ تھوکنے والے کی یا چاٹنے والی کی!!
جب اس ملک کے عوام ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر بجلی کے بل دینے پر مجبور ہیں، انہیں اپنے بلوں میں GST فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز فیول ایڈجسٹمنٹ سرچارج، نیلم منگلا سرچارج اور ٹیلی وژن فیس کے 25 روپے بھی دینے پڑتے ہیں۔ حکومت نے اپنا ایک تھوکا ہوا چاٹا!!!
حکومت نے لوہا پگھلانے والی بھٹیوں کی ایسوسی ایشن کے ”مطالبے“ پر ان کا سرچارج جو بجٹ میں عائد کیا گیا تھا۔ 5.75 روپے فی یونٹ سے کم کر کے 4 روپے فی یونٹ تک کم دیا ہے (یاد رہے کہ کسی سٹیل فرنس کا بجلی کا ”جائز“ بل بھی کروڑوں سے کم نہیں ہوتا) یہ شرح پچھلے سال کے بجٹ سے بھی کم ہے!!
یہ تھوک کر چاٹنے والا قصہ صرف آج کا نہیں، ”نصف صدی کا قصہ ہے، دو چار برس کی بات نہیں“ بڑے بڑے دعوے، لمبی لمبی باتیں عظیم فیصلے، کس کس نے نہیں کئے، کس کس نے نہیں بدلے، مگر اصل مسئلہ تھوک کر چاٹنے والے نہیں، انہیں برداشت کرنے والے ہیں۔ آپ کے سامنے روزانہ ایسی درجنوں مثالیں آتی ہیں۔ روز گزشتہ کے اخبارات کو لے لیجئے جن میں یہ قصہ موجود ہے کہ مشرف دور میں جس سیٹھ کو ”توانا پاکستان“ کے نام پر بچوں کو مفت دودھ پلانے کا جو ٹھیکہ دیا گیا تھا اور موصوف نے اس میں جو ہیرا پھیری کی NAB ساڑھے اٹھارہ کروڑ مبلغ سکہ رائج الوقت لے کر مجرم کو معاف اور قصور کو صاف کر رہا ہے!
انہی اخبارات میں ایک وزیر موصوف کا یہ بیان موجود ہے کہ ارکان اسمبلی کی سفارش پر 60 ہزار سے زائد ممنوع بور کے لائسنس دیئے گئے کل کو یہی حضرت بیان دیں گے کہ ملک کو اسلحے سے صاف کر دیا جائے گا پھر یہی صاحب کمال اپنا تھوکا ہوا چاٹنے پر مجبور ہوں گے اور اسلحہ وہیں موجود رہے گا!
صاحبو.... دانش کا دعویٰ تو نہیں، مگر سب کچھ لٹ جانے کا احساس ضرور مارے جاتا ہے۔ قومی عزت، قومی وقار، قومی دولت.... ساری عمر صحافت میں گزار دی مگر یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ ہمارے حکمران کاروبار حکومت اور امور مملکت کیسے چلاتے ہیں؟ پھر اپنے سردار ہرنام سنگھ کا ایک لطیفہ سنا تو یکایک چودہ طبق روشن ہو گئے اور سمجھ میں آگیا کہ یہ حکمران کیا کرتے ہیں کہ کہاں پھنستے ہیں۔ تھوکتے کس مجبوری کے تحت ہیں اور چاٹتے کس طرح ہیں! سنیئے حکومت نے اعلان کیا کہ جس خاندان کے پانچ بچے ہوں گے، حکومت انہیں مفت گھر فراہم کرے گی۔ سردار ہرنام سنگھ کے بچوں کی تعداد تین تھی۔ میاں بیوی پریشان کہ بچے پانچ ہوتے تو کم از کم گھر مفت میں مل جاتا۔ پھر ہرنام سنگھ کو کچھ خیال آیا اور بیوی سے بولا۔ ”دیکھو.... میں آج تم سے سچ بول رہا ہوں۔ بات غلط ہے مگر مستقبل کا سوال ہے، لڑائی مت کرنا، میں تم سے بے وفائی کا مرتکب ہوتا رہا ہوں۔ ہمارے ہمسائے کے دو بچے بھی دراصل میرے ہیں۔ میں انہیں واپس لے آتا ہوں ہمارے بچوں کی تعداد پانچ ہو جائے گی.... گھر مفت میں مل جائے گا۔“ بات تو رسوائی کی تھی، مگر فائدے کی بھی.... ہرنام سنگھ کی بیوی مان گئی۔ ہرنام سنگھ ہمسائے میں گیا اور لڑجھگڑ کر دونوں بچوں کو لے کر خوش خوش آیا اور بیوی سے بولا۔ ”بھاگوان.... یہ لو دو بچے.... مگر اپنے تین کدھر ہیں نظر نہیں آ رہے؟“ بیوی بولی، ”سردار جی.... وہ جن جن کے تھے، وہ بھی اپنے بچے پورے کرنے کے لئے واپس لے گئے ہیں!! تو صاحبو.... اب سمجھ آئی تھوکنے اور چاٹنے والوں کی کتھا.... ان کے لالچ اور مجبوریاں!!
تازہ ترین