• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ اتوار پچھلے اتوار سے بھی زیادہ پرہول لگ رہا تھا۔

بچوں کے پاس بہت ہی مشکل سوالات ان کی نگاہوں کی چبھن ماتھے کے شکن مجھے خوفزدہ کررہے تھے۔ایسے ہی حالات تھے12اکتوبر1999کو بھی ،سہ پہر سے یہ عالم شروع ہواتھا۔ طیارے کو کراچی نہ اترنے دیا جائے کہیں بھی نہیں اس میں آرمی چیف کے ساتھ ساتھ اور بھی مسافر تھے، بچے بھی بڑی تعداد میں تھے۔ لیکن منتخب وزیر اعظم کو نہ ان کی کابینہ کو نہ ان کی پارٹی کو ۔ نہ ہی اس وقت کے دانشوروں کو۔ انسانیت کی اقدار کی انسانی جانوں کی کوئی پروا تھی ۔

ایسے ہی وسوسے اور خدشات تھے۔ 3نومبر 2007ءسے کئی دن پہلے سے ۔پہلے ایک آئینی ضرورت صدارتی انتخاب کو روکا جارہا تھا ۔ اسکی اجازت دے دی گئی ۔ پھر اس کے نتائج پر پابندی لگا دی گئی۔ یہ نتیجہ آنے کے بعد منتخب صدر کو حلف اٹھانا تھا ۔ حلف بھی اسی منتخب جسٹس کو لینا تھا جو نتائج روک رہا تھا ۔ صدارتی حلف کے بعد صدر نے اگلے انتخابات کا اعلان کرناتھا۔ سب کچھ رکا ہواتھا۔

آج بھی حالات اس طرح کے پیدا کیے جارہے ہیں۔ ویسے ہی خدشات ہیں۔مختصر فیصلے نے ہی پاکستان کو تقسیم کردیا ۔ بہت سے اسے تاریخ ساز فیصلہ قرار دے رہے ہیںکہ اب کسی طالع آزما کو میرے عزیز ہم وطنو کہہ کر آئین منسوخ کرنے کی جرات نہیں ہوگی ۔ کچھ اس فیصلے پر افسوس ظاہر کررہے تھے کہ ڈاکوئوں اور لٹیروں کوتو رہا کیا جارہا ہے۔ ایک محب وطن جنرل کو پھانسی دی جارہی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کسی طور پر بھی غدار نہیں ہوسکتے۔

ایک مشاہدہ یہ بھی ہوا کہ فیصلے پر منفی تاثرات اور پرویز مشرف کے حق میں مظاہرے صرف پنجاب کے مختلف شہروں اور کراچی میں دیکھنے میں آئے۔ اندرون سندھ۔ بلوچستان خاموش رہے۔ سابق چیف جسٹس نے جاتے جاتے یہ کہا کہ آج کی عدلیہ2007ءسے پہلے والی عدلیہ نہیں ہے۔ بالکل درست۔ اسی لئے ایک فوجی حکمران کیخلاف مقدمہ بھی چلا فیصلہ بھی ہوا لیکن تفصیلی فیصلے نے ہوا کا رخ بدل دیا۔ عدلیہ تبدیل ہوگئی ہے۔ نظریہ ضرورت والی عدالتیں نہیں رہی ہیں۔ لیکن پیراگراف66نے تو یہ ظاہر کیا کہ یہ جج2007ءسے پہلے والے بھی نہیں بلکہ سولہویں صدی کے ہیں۔

ولادی میرلینن نے کہاتھا ۔

THERE ARE DECADES WHERE NOTHING HAPPENS AND

THERE ARE WEEKS WHERE DECADES HAPPEN

’’ بعض عشرے ایسے ہوتے ہیں کہ کوئی واقعہ رونما نہیں ہوتا۔ اور بعض ہفتوں میں عشرے واقع ہوجاتے ہیں‘‘۔ دسمبرکا یہ ہفتہ ایسا ہی تھا۔جہاں صرف عشرے نہیں صدیاں رونما ہوگئیں۔ہم نے ان چند دنوں میں صدیوں کو آپس میں لڑتے دیکھا۔ اکیسویں صدی شرم سے منہ چھپائے اکیلی پھرتی رہی ۔ میں بھی اپنے ذہن اور دل میں تصادم دیکھ رہا ہوں۔ یہ تحریر میں چوتھی بار نئے سرے سے لکھ رہا ہوں ۔ کبھی میرا ذہن میرا قلم روک لیتا ہے۔ کبھی دل۔ آپ اور میں ان برسوں میں جن تضادات ا لمیوں ،محرومیوں اور منافقتوں سے گزرے ہیں۔ اپنوں کی اور غیروں کی سازشوں کا شکار رہے ہیں ہمارے ذہن اور مزاج ان کشاکشوں سے انتشار میں مبتلا ہیں۔ پہلے ان ذہنوں کا مشاہدہ گھوم پھر کرمختلف حلقوں محفلوں میں جاکرہوتا تھا ۔ اب سوشل میڈیا یہ ذہنی فساد گھر بیٹھے دکھادیتا ہے۔ مجھے تو خوف آتا ہے کہ ہم پاکستانیوں کے ذہنوں میں کلبلاتے یہ عقیدے۔یہ ارادے یہ انارکی اگرگلی کوچوں سڑکوں پرنکل آئی۔ توان کے آگے کون بند باندھے گا۔

وہ حبس ہے کہ لو کی دعا مانگتے ہیں لوگ ،آوازیں بلند ہورہی ہیں مگر باعث صد اطمینان یہ حقیقت ہے کہ عدلیہ کی طرح اب ہماری مسلح افواج بھی نظریہ ضرورت والی نہیں رہی ہیں۔ حالات1999-1958والے آج بھی ہیں ،منتخب حکومت آج بھی ڈانواں ڈول ہے،سیاسی پارٹیوں کی بیان بازی بھی اسی طرح ہے،اب براہ راست افواج کو للکاراجارہا ہے۔ لیکن جی ایچ کیونے تاریخ سے سبق سیکھا ہے اب فوج ہتھ چھٹ نہیں رہی ہے صرف پریس کا نفرنس کررہی ہے۔ ٹینک باہر لے کر نہیں آرہی ہے۔یہ اپنے اضطراب، بے چینی کو باہر نہیں آنے دے رہی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہاں ذہن سازی صحیح سمت میں ہورہی ہے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے خطے کے مزاج آفاقی توکیا قومی بھی نہیں ہوسکے۔ ادھر72سال سے مسلسل جمہوریت کے تجربے اور صرف الیکشن سے حکومتیں بدلنے والے بھارت کا حال دیکھ لیں۔ وہاں انسانیت کتنی بدحال ہے۔ جمہوریت اور سیکولرازم نے وہاں کیسے متعصب ذہنوں کو جنم دیا ہے۔ پارلیمانی جمہوریت کا کیا یہی مظہر ہے۔

ادھر پاکستان میں ذہنوں میں صوبائیت، لسانیت، فرقہ پرستی،برادری ،قبیلے کی کھچڑی پک رہی ہے۔ جدید ترین ایجاد سوشل میڈیا پر گھروں۔دفتروں، تحریروں، ٹاک شوز۔پریس ریلیزوں ۔فیصلوں میں ذہنوں کی اس گڑبڑ کا اظہار ہوتارہتا ہے۔ ذہنی بیماری عام ہوگئی ہے۔72سال سے اس قوم کے ساتھ جو سلوک ہورہا ہے یہ اسکا منطقی اور تاریخی نتیجہ ہے۔ معاشرے کے سارے طبقے اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ ہم تواپنے اسمارٹ فون پر صرف اپنے رابطوں کے تبصرے دیکھتے ہیں مگر ہماری بربادیوں کے مشورے کرنے والے توسارے پاکستانیوں کی پوسٹیں دیکھتے ہیں۔ وہ اپنے پیمانوںکے ذریعے ایسے بیمار ذہنوں کا زائچہ مرتب کرتے ہیں۔ اس کی روشنی میں طے کرتے ہیں کہ ایسی قوم کے ساتھ کیا سلوک کرنا ہے۔ وہی سلوک ہمارے ساتھ ہورہا ہے۔ اقتصادیات ہماری ترجیح نہیں ہے۔ حالانکہ یہ ہماری کمزوری ہے طیب اردوان غلط تو نہیں کہہ رہے ہم اپنے کئی لاکھ ہم وطنوں کے سعودی عرب سے نکالے جانے کے ڈر سے امت کے اتحاد میں شامل نہ ہوسکے یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے۔ آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا؍ آگ کرسکتی ہے انداز گلستاں پیدا

تازہ ترین