• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی بھی ملک کی ترقی کا دارومدار وہاں ہونی والی سائنس وٹیکنالوجی کی ایجادات پر ہوتا ہے۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلم ممالک بالعموم اور خاص کر پاکستان بالخصوص سائنس وٹیکنالوجی کے میدان میں بہت پیچھے ہیں۔ لیکن " غیروں" کی " ایجادکردہ ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے میں سب سے آگے"۔ بلکہ اگر یہ کہاجائے کہ ہم زندگی کے ہر شعبہ میں صرف غیروں کی نقل ہی کرتے ہیں بغیریہ سوچے سمجھے کہ آیا اس سے ہمیں فائدہ بھی ہوگا یا نقصان ہوگا۔اورعموماً ہم ان چیزوں کی نقل زیادہ کرتے ہیں جن سے ہمیں نقصان زیادہ ہوتا ہے اور جو ہمارے سدہار نے کے لیے ہوتی ہیں انہیں ہم نظرانداز کردیتے ہیں۔ سب سے پہلے تعلیم کا ذکرہوجائے ۔ تمام ترقی یافتہ ممالک میں ابتدائی تعلیم ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے اور عوام کے لیے حاصل کرنا فرض ۔ لیکن ہمارے ہاں ایسی کوئی پابندی نہیں۔ چونکہ ہم آزاد ملک کے نمائندے ہیں۔ اس لیے تعلیم حاصل کریں یا نہ کریں ہماری مرضی۔ ہم آزاد ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ریاست اپنی ذمہ داریوں سے کس قدر واقف ہے۔غیرتعلیم یافتہ افراد معیشت ومعاشرہ پہ بوجھ ہوتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں بوجھ کو کم کرنے کے لیے ابتدائی تعلیم کے حصول کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایاجاتا ہے۔ بالکل اسی طرح نشہ کے عادی افراد جو اپنے مالی اورسماجی مسائل سے آنکھیں چرا کر نشہ کے عادی بن جاتے ہیں اور سارا سارا دن نشہ میں دھت سڑکوں کے کنارے پڑے رہتے ہیں۔ کیا "افرادی قوت" کا یہی استعمال ہے۔ کیا انہیں ایسی حالت میں چھوڑ دیناچاہیے کہ معاشرے پہ بوجھ بنےرہیں۔ بلکہ ریاست کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے۔ غیراہم اور شخصی نوعیت کے مسائل سے توجہ ہٹاکر اجتماعی بہبود میں اہم کردارادا کرنا چاہیے۔ نشہ کا عادی ہونا جرم قرار دیا جائے۔ ان کے لیے " بحالی مراکز " Rehablition Centers" کے علاوہ "پیشہ وارانہ تربیتی مراکز " ( Vocational trainings centres)مراکز قائم کئے جائیں تاکہ ان نشہ کے عادی افراد کو قومی دھارے میں شامل کیا جاسکے اور ان کی خدمات سے فیض یاب ہوسکیں۔ معیشت وسماج پہ بوجھ بننا بہت آسان ہے۔ غربت کے حق میں بولنا اس سے زیادہ آسان۔ لیکن ایسی خودساختہ غربت اور بے

حسی کو ختم کرنے کے لیے بہت سی محنت اور کاوشیں درکار ہیں اور یہ سب کچھ سیاسی اور سماجی خواہش (مرضی) کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ اس کے علاوہ اینٹی نارکوٹکس فورس یا ادارے اس کی کارکردگی پہ کڑی نظررکھی جائے۔کہ ان کی موجودگی میں کس طرح لوگ اور خاص طور پر یونیورسٹی کے نوجوان نشے کے عادی بنتے چلے جارہے ہیں۔ان پابندی کے باوجود اس کی سپلائی اتنی آسان کیوں ہے؟بالکل اسی طرح اندھی تقلید کرتے ہوئے تعلیم کے نام پر اعلیٰ تعلیمی کمیشن پر کروڑوں ، اربوں روپے خرچ کرکے تعلیمی کے میدان میں اس قدر پیچھے؟ اعلیٰ تعلیم کے نام پر سائنس وٹیکنالوجی کا صرف شور۔سارا زوربزنس مینجمنٹ کے کاروبار پہ ہے۔ کیونکہ اس کی " رسد آسان" اور " طلب زیادہ" ہے۔ یوں " مال" بنانا بہت آسان اور اعلیٰ تعلیم کی اعلیٰ تعلیم بھی۔۔۔۔۔۔کیا واقعی یہی اصل ضرورت ہے یا ہمیں صحیح معنوں میں سائنسدانوں کی ضرورت ہے؟ جو ہماری ضرورتوں کے مطابق نئی نئی ایجادات کریں اور اس کے بعد انجیئنرزکی ضرورت ہے جو پہلے سے ایجاد کی ہوئی اشیاء کو جدت واختراع (innovation) کے تحت کم قیمت پر تیار کرسکیں۔ اور اس کے بعد ہمیں پیشہ وارانہ صلاحیتوں سے بھرپور افرادی قوت تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ جن میں تربیت حاصل کرکے لوگ معاشرے اور معیشت میں اہم کردارادا کرسکیںاور بے روزگاری جیسے اہم مسائل پر قابو بھی پایاجاسکے۔ زبردستی ایم فل اور پی ایچ ڈی کرواکر بے روزگاری میں اضافہ کرنے کیا تک ہے؟ اب تک لکھے گئے تحقیقی مقالوں سے ملکی مسائل کے سمجھنے میں کتنی مدد ملی؟ یا ارباب اقتدار کو ملکی بھاگ ڈور سنبھالنے میں؟ لہذا اس اعلیٰ تعلیمی نعرے پہ نظرثانی کیجئے۔ یقیناً یہ ایک فردیاچند اشخاص کے لیے بہت مفید ہوگا۔ لیکن بحیثیت مجموعی اس کے ثمرات عوام الناس تک نہیں آرہے۔ کیونکہ عمارت کی مضبوطی اس کی اونچائی اور تزئین وآرائش پر نہیں بلکہ اس کی "بنیادوں "پر منحصر ہوتی ہے۔جتنی بنیاد مضبوط ہوگی اتنی ہی عمارت پائیدار ہوگی ۔صرف تزئین وآرائش کرلینے سے وقتی توجہ تو مل جاتی ہے لیکن آنے والے وقتوں میں عمارت کا کھوکھلا بن کھل کر سامنے آجاتا ہے۔ تواگر بنیادی تعلیم جس میں بلاتفریق دس جماعتوں تک تعلیم اور پیشہ وارانہ تربیت لازمی شامل کردی جائے تو اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے بجٹ سے کم بجٹ میں بہترین افرادی قوت تیار ہوسکتی ہے۔ بس ذرا اپنے ملک کے حالات کو دیکھ کر فیصلہ کرنا ہے ۔آنکھ بندکرکے نقالی نہیں کی جاسکتی۔ "شخصیت "اہم نہیں ،"افراد "اہم ہیں۔

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین