• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ابھی 10 جنوری کے خون آشام منظر کی آندھی نہےں تھمی تھی کہ 16 فروری کی شام کے سورج نے ڈوبتی نظروں سے کوئٹہ شہر کی سر زمےن اےک بار پھر معصوموں کے خون سے رنگتے دےکھا۔ اتوار کی ےہ خونی شام 90 معصوم زندگےوں کی آخری شام تھی۔ 169 لوگ زخمی تھے اور نہ جانے کتنے خاندانوں کے گھروں مےں صف ماتم بچھ گئی تھی نہ جانے کتنی ماﺅں کے جگر کے ٹکڑے موت کی اندھےری وادی مےں دھکےل دئے گئے جو زندگی سے ناطہ توڑ گئے قےدحےات اور بند غم دونوں سے رہائی پاگئے لےکن نہ جانے کتنے ہوں گے جنہےں اپنے ادھورے وجود کے ساتھ زندگی کے بوجھ کو گھسےٹنا پڑے گا۔ اپنے پےاروں کو قبر کی گود مےں اتارنے خود جےتے جی مرجاتے ہےں۔ اب تو ہمارے شہروں مےں موت اس طرح رقصاں ہے کہ امن کی کونپلوں نے کسی بھی موسم مےں ٹھوٹنا بند کردےا۔ گلی کوچوں مےں سڑکوں پر انسانی خون بہتا رہتا ہے ٹارگےٹ کلنگز خودکش حملے بموں کے دھماکے اےدھی کی اےمبولےنس مردہ خانوں مےں رکھی ہوئی لاشےں۔ ےہ سب اب خلاف معمول بات نہےں۔ اب ےہ سب لوگوں کے لئے معمولات زندگی کا حصہ بن چکا ہے لےکن حالات کی ستم ظرےفی اور ماحول کی اضطرابےت کو معمولات زندگی سمجھ لےنا اپنی مزاحمتی قوت کو کمزور کرنے کے مترادف ہے اگر افراد کی مزاحمتی قوت کمزور ہوجائے تو معاشرے مےں موجود سماج دشمن عناصر اور منفی قوتوں کو ہنسنے کا موقع مل جاتا ہے۔مزاحمتی قوت صرف سانحوں کے خلاف ملک گےر احتجاج اور دھرنوں تک محدود نہےں ہونی چاہئے۔ توڑ پھوڑ کرنے ٹائر جلانے سڑکےں بلاک کرنے، رےلےاں نکالنے ےا مظاہرے کرنے سے نظام تبدےل نہےں ہوتے اور نہ ہی حکمرانوں کی بے حسی پر کوئی ضرب پڑتی ہے۔ ےہاں اب اپنی بقا اور ملک کی سلامتی کی جنگ تدبر اوردانشمندی کے ہتھےاروں سے لڑنے کا سوال ہے۔ عام طور پر ہو ےہ رہا ہے کہ حالات کے جبرسے قوم نے”جو ہورہا ہے ہونے دو“ والی لاتعلقی اور بے گانگی کا روےہ اختےار کرلےا ہے اور جب کوئی موج خوں سر سے اونچی ہوکے گزرتی ہے تو تھوڑی دےر کے لئے شور اٹھتا ہے اور پھر وہی خامشی بے حسی، بے گانگی، جسم برف ہوتے جارہے ہےں اور خون پانی تعجب ہوتا ہے کہ زندگی کےسے ہمارے پر آشوب شہروں مےں سانسےں لے رہی ہے۔ ہنگامے ہوتے رہتے ہےں جانےں جاتی رہتی ہےں دکانےں اور سکول آنا فانا بند ہوتے ہےں اور پھر آل ازکلےئر کا سنگل دے دےا جاتا ہے۔ اور زندگی حسب معمول چلتی رہتی ہے۔ وہی عروس البلاد کراچی اب کسی بےوہ کی اجڑی ہوئی مانگ کی طرح وےران اور برباد نظر آتا ہے۔ کےا خوبصورت شامےں ہوتی تھےں اس شہر کی دکانوں کے جلتے بجھتے نےون سائن،جگمگ کرتی شاہرائےں بہتی ہوئی روشنےوں کا سمندر سےنما گھروں مےں لوگوں کا ہجوم سمندر کے کنارے زندگی اور گہماگہمی مےں راتےں جاگتی اور شامےں مسکراتی تھےں۔ ساحل پر بےتی پھترےلی دےوار سے اٹھکھلےاں کرتا ہوا سمندر مگر اب اس شہر کے جنونی انداز سے سمندر بھی خوفزدہ ہے اب تو لوگوں کو ےہ بھی ہداےات دی گئےں ہےں کہ اپنا بلڈ گروپ گھر کا پتہ اور ٹےلی فون نمبر اپنی جےبوں مےں رکھ کر گھر سے نکلا کرےں کےونکہ اکثرلاشوں کو شناخت ہونے پر انہےں لاوارث قرار دے دےا جاتا اور زخموں کو بروقت خون نہےں مل پاتا۔ کسی بھی خوشحال مملکت کی گاڑی چار پہےوں پر چلتی ہے۔ قانون کی بالادستی تعلےم کا فروغ، صحت اور عمدہ معےشت اور ہماری رےاستی گاڑی کے ےہ چاروں پہےے ناکارہ ہےں۔ لےکن اےک خوش آئندہ بات ےہ ہے کہ اس گاڑی کا انجن ےعنی عوام بہت با ہمت اور اعلی صلاحےتوں کے مالک ہےں البتہ گاڑی کو چلانے والا اےندھن ےعنی حکمران بہت نا قص معےار کے ہےں اس لئے کسی قابل اعتماد اور اچھی کمپنی کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے جو ہماری رےاستی گاڑی کو اچھا اےندھن فراہم کرسکے اور اس کے ناکارہ پہےوں کو تبدےل کرکے بلا جھٹکوں کے سبک رفتاری سے جمہورےت کی شاہراہ پر دوڑنے کے لائق بناسکے۔ آج صورت حال ےہ ہے کہ ہمارے حکمران کسی بھی بڑے سانح پر سوگ کا اعلان کرکے ےا مذہبی بےانات دے کر اپنا فرض پورا کردےتے ہےں ۔ بے بس عوام اپنے پےاروں کی لاشےں سڑکوں پر دکھ کر احتجاجی دھرنے کرتے ہےں اور پھر رو پےٹ کر خاموش ہوجاتے ہےں کوئی دادرس کرنے والا نہےں زخم رستا رہتا ہے اور اس پر وقتی تسلےوں کا مرہم رکھ دےا جاتا ہے انتخاب قرےب آتے ہےں سےاستدانوں کے نئے ڈرامے شروع ہوجاتے ہےں لےکن
نظر آتے ہےں ہر اک بار وہی عہدوں پر
چند چہرے جو صف قاتل سفاک مےں ہےں
ہم سب بھی اپنی اپنی سوچ کے ان چھوٹے چھوٹے جزےروں سے بار نہےں نکلتے جنہےں ہم نے کہےں علاقوں زبانوں اورکہےں فرقوں کی بنےادوں پر قائم کر رکھا ہے اگر ہم سب ان جزےروں سے نکل کر قومی ےکجہتی کے کشادہ مےدان مےں جمع ہوجائے تو ضرور اےک مضبوط مزاحمتی قوت بن کر ملک کے اندرونی اور بےرونی دشمنوں، سازشوں اور ملکی انتشار کا خاتمہ کرنے مےں کامےاب ہوسکتے ہےں۔ دانشورانہ اور علمی و ادبی محاذوں پر ہی انقلابی تحرےکےں جنم لےتی ہےں۔ ذہنوں کی مثبت تبدےلی ہی معاشرے مےں اعلی قدروں کے فروغ اور منفی قوتوں کے خاتمہ کا اعلان ہوتی ہے۔ صحافی، ادےب، شاعر، دانشور معاشرہ کے وہ ستون ہوتے ہےں جو انقلابی تحرےکوں کو اےک اےسی سےاہ رات کی کوکھ سے ہی امےد کی نئی صبح جنم لےتی ہے آج ادےبوں، صحافےوں، شاعروں اور دانشوروں کو بھی اپنے منصب اور ذمہ داری کو پہچانے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ آج ضرورت ہے کہ کوئی نےلسن منڈےلا اٹھے جس نے کہا تھا کہ سےاستدان ہمےشہ آنے والے انتخابات کے بارے مےں اور لےڈر آنے والی نسل کے مستقبل کے بارے مےں سوچتا ہے کاش آج کوئی نےلسن منڈےلا ہماری قوم کو سوچ کے چھوٹے جزےروں سے نکال کر سلامتی اور ےکجہتی کا راستہ دکھاسکے۔
کوئی تو جلتی ہوئی بستی کو بچالے آکر
آج ہر لب پہ ےہی اےک دعا ہے خدا سے پوچھو
تازہ ترین