• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’10لاکھ والدین نے صرف خیبر پختونخوا میں اپنے بچوں کو پولیو كے قطرے پلانے سے انکار کر دیا‘‘۔ اِس کا مطلب ہے كہ امسال کئی لاکھ بچے ایسے ہیں جنہیں پولیو كے قطرے نہیں پلائے گئے۔ پاکستان میں 2019ء میں رپورٹ ہونے والے 111پولیو کیسز میں سے 79پولیو کیسز خیبر پختونخوا سے تھے اور بدقسمتی سے پاکستان دنیا كے اُن تین ممالک میں سے ایک ہے جہاں اب بھی پولیو کی بیماری موجود ہے۔ اب اگر کوئی یہ کہے كہ جو لوگ پولیو كے قطرے نہیں پلاتے، یہ لوگ کم علم ہیں، شدت پسندی کا عنصر رکھتے ہیں تو یہ درست نہیں۔ جب پولیو كے قطرے نہ پلانے کی بات کی جاتی ہے تو عموماً اِسی طرح کی باتیں کی جاتی ہیں۔ اِس بات میں یقیناً کچھ سچائی بھی ہے لیکن دوسری جانب ترقی یافتہ ممالک میں بھی والدین كی (اگرچہ قلیل) تعداد ایسی ہے جو بچوں کو مختلف ویکسینیشن دینے سے انکار کر رہے ہیں حالانکہ ویکسی نیشن میڈیکل سائنس کی ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ پہلے جہاں پر سارا زور بیماری کے علاج میں لگتا تھا اور بیشتر بیماریاں جن کا علاج ہو ہی نہیں سکتا ، ویکسین ایسی بیماریوں کی روک تھام میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ ویکسی نیشن کی بدولت خسرہ اور چیچک جیسی خطرناک بیماریوں سے ہم آزاد ہیں۔ اگر ویکسینیشن بہت ضروری ہیں تو پِھر سوال یہ ہے كہ لوگ ویکسینیشن کیوں نہیں کرواتے؟ اِس میں سب سے بڑا کردار مِس انفارمیشن کا ہے اور شاید دوسرا بڑا کردار بے اعتمادی کا۔

پاکستان اور دیگر مسلمان ممالک میں جب یہ معاملہ سامنے آیا كہ اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن میں پہلے ڈاکٹر شکیل آفریدی نے پولیو ویکسین کا بہانہ بنا کر ڈی این اے سیمپل اکٹھے کیے تھے اور اسامہ بن لادن کی نشاندہی کی تھی، اِس پر پاکستان سمیت دوسرے مسلمان ممالک میں ری ایکشن كے طور پر پولیو کی ویکسین كے خلاف فتوے بھی آئے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے ویکسینیشن کو اِس طرح ملٹری آپریشن میں استعمال کركے لوگوں کی جانوں کو خطرے میں ڈالنے کی سخت مذمت کی۔ دوسری جانب اعداد و شمار كے مطابق اِس واقعے كے بعد پاکستان میں ویکسین کی شرح میں کمی آئی ہے۔ اب بھی کچھ جگہوں پر ویکسین ورکرز کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

یہ تو بے اعتمادی کی بات ہو گئی، لیکن دنیا بھر میں تو ایسا مسئلہ نہیں، تو وہاں ویکسین میں کیا مسائل پیش آرہے ہیں۔ یہاں پر سوشل میڈیا اور مِس انفارمیشن کا ایک بھیانک رول رہا ہے۔ یو ٹیوب ہو، فیس بک یا وٹس ایپ، ایسے ایسے سنسنی خیز میسجز اور وڈیوز بنائے گئے اور وائرل کیے گئے جن کا سائنس یا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں لیکن یہ لوگوں کو ڈرانے میں اور ویکسی نیشن سے دور رکھنے میں خوب کام آ رہے ہیں۔ ان عجیب و غریب سازشی تھیوریوں پر لوگ یقین بھی کر لیتے ہیں اور اوروں کو متاثر کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ پاکستان میں بھی اِس طرح کی کئی وڈیوز بنائی گئیں۔

اِس سارے معاملے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے كہ ایک شخص کا ویکسین نہ لگوانا ایک انفرادی عمل نہیں ہے۔ اِس سے ’’کولیکٹیو ایمونٹی‘‘ یعنی بیماری سے بچنے کی مشترکہ صلاحیت کم ہوتی ہے۔ کیونکہ اگر سب نے ویکسینیشن کروائی ہو تو بیماری لگنے کا خطرہ کم سے کم ہوتا ہے لیکن جتنے زیادہ لوگ ویکسینیشن سے انکار کریں گے، اتنے ہی زیادہ بیماری كے واپس لوٹنے کے چانسز زیادہ ہوں گے۔ چیچک کی بیماری جن لوگوں کو لاحق ہوتی تھی، ان میں سے 30فیصد کے لیے یہ بیماری جان لیوا ہوتی تھی۔ گزشتہ صدی میں اس بیماری نے لگ بھگ 30کروڑ لوگوں کی جانیں لی تھیں! یعنی پاکستان کی آج کی آبادی سے بھی زیادہ، لیکن آج کے دور میں ویکسین کی بدولت اب چیچک دنیا سے تقریباً ختم ہو گئی ہے۔ آج ہم اس کی ویکسین بھی نہیں لگاتے، کیونکہ یہ بیماری رہی ہی نہیں۔ یہ انسانیت کی کسی بھی بیماری كے خلاف سب سے بڑی فتح ہے! پولیو بھی ایک ایسی بیماری ہے جس کو ہم دنیا بھر سے مکمل ختم کر سکتے ہیں لیکن پاکستان افغانستان اور نائیجیریا میں یہ بیماری اب بھی موجود ہے۔

اگر اِس مسئلے کی جڑ مِس انفارمیشن اور بے اعتمادی ہے تو اِس کا حل ویکسی نیشن كے ساتھ ساتھ صحیح انفارمیشن اور اعتماد کی بحالی ہے۔ حکومتی کوششیں اِس مفروضے پر چلتی ہیں كہ ویکسی نیشن بہت ضروری ہے اور سب کو لگوانی چاہئیں۔ اگر کوئی نہیں لگواتا تو کبھی جبر اور کبھی منت سے کام چلا لیا جاتا ہے۔ لیکن سمجھانے کی، پڑھانے کی اور لوگوں کو اِس کا اسٹیک ہولڈر بنانے کی کوشش اُس شدت سے نہیں کی جاتی جو مطلوب ہے۔ اِس کو سب سے اعلیٰ سطح پر ڈسکس کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں کبھی یہ نہیں کہا كہ ہم نے پولیو کا خاتمہ کرنا ہے۔ جس طرح ہم نے کشمیر کاز کی بات کی، اسی طرح پولیو كے خاتمے کی بات کرنا ہو گی، اِس کو قومی فریضہ بنانا ہوگا، مِس انفارمیشن کا حل صحیح انفارمیشن ہے اور یہ کام این جی اوز یا فارن ڈونرز کو نہیں بلکہ ہمیں خود سب سے پہلے کرنا ہے۔ یہ ہمارے بچوں اور آنے والی نسلوں كے مستقبل کا سوال ہے!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین