• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب وہ پھول لے کر بادشاہ کے پاس پہنچا تو پرندے اداس تھے، انھوں نے چہچہانا بند کر دیا تھا۔ پھول دیکھتے ہی پرندوں میں جیسے جان پڑ گئی۔ وہ پھر سے بولنے لگے۔ بادشاہ خوش ہو گیا لیکن چالاک دکان دار یہ دیکھ کر جل گیا کہ بہزاد پھر کامیاب ہو گیا، اس نے بادشاہ سے کہا،"بادشاہ سلامت! یہ پھول تو مرجھا جائیں گے، کیوں کہ پودوں میں لگے ہوئے نہیں ہیں۔ بہزاد سے کہیے کہ وہ سمن کا پودا لے کر آئے، جس میں پھول لگے ہوں۔"

بادشاہ نے کہا، "یہ ٹھیک کہہ رہا ہے۔ تم کالے دیو کے باغ میں پھر جاؤ اور وہاںسےسمن کے پھولوں والا پودا اکھاڑ لاؤ۔" اب بہزاد نے سوچ لیا تھا کہ بادشاہ اور دکان دار دونوں کو شرارتوں کا مزہ چکھائے گا۔ اس نے کہا,"حضور! یہ پھول کالے دیو کے باغ میں نہیں لگتے۔ یہ تو ایک ایسے شہر میں ہوتے ہیں جو بالکل ہمارے شہر کی طرح ہے۔ بلکہ اس کا نام بھی وہی ہے جو ہمارے شہر کا ہے۔ جو لوگ مر جاتے ہیں، وہ اس شہر میں رہتے ہیں۔ 

ان سب لوگوں کے بادشاہ آپ کے والد ہیں، جن کا انتقال ہوئے بہت عرصہ ہو گیا ہے۔ جب میں یہ پھول لینے اس شہر پہنچا اور آپ کا نام لے کر بتایا کہ آپ نے پھول منگوائے ہیں تو آپ کے والد بہت روئے اور کہنے لگے کہ میرا بیٹاخود مجھ سے ملنے کیوں نہیں آتا، اگر میں تمھیں اس کا پودا دے دوں گا تو وہ مجھ سے ملنے کبھی نہیں آئے گا۔ ابھی پھول لے جاؤ جب وہ خود آئے گا تو میں اسے ڈھیر ساری دولت بھی دوں گا۔"

اس کے بعد وہ چالاک دکان دار کی طرف مڑا اور کہا، "اور جناب! آپ کے والد بھی وہاں تھے۔ انھوں نے آپ کے لیے وہاں بہت سے سونے کے سکے جمع کیے ہوئے ہیں۔"

چالاک دکان دار سمجھ گیا کہ بہزاد ان کو پھانسنے کے لیے باتیں بنا رہا ہے، لیکن بےوقوف بادشاہ نے حکم دیا،" فوراً تیاری کی جائے۔ ہم ابھی وہاں جائیں گے۔"

بہزاد نے کہا : " چلیے! میں آپ کو لے چلتا ہوں۔"

وہ ان کو لے کر دریا کے کنارے پہنچ گیا۔ دریا پر پہنچ کر بہزاد نے کہا, "اس شہر کا راستہ اس دریا کی تہہ میں ہے۔ آپ دریا میں چھلانگ لگا دیجیئے۔ دریا کی تہہ میں پہنچ کر آپ وہاں کھڑے ہو جائیے گا اور سو تک گنیئےگا۔ سو تک گننے کے بعد دریا کی تہہ میں ایک دروازہ کھلے گا اور آپ اس شہر میں داخل ہو جائیں گے۔"

بےوقوف بادشاہ دریا میں چھلانگ لگانے کو تیار ہو گیا، لیکن چالاک دکان دار نے کہا، "ٹھہریے! یہ جھوٹ بول رہا ہے، اگر یہ سچا ہے تو پہلے یہ خود چھلانگ لگائے اور دریا کی تہہ میں پہنچ کر اس شہر میں جائے اور وہاں سے سمن کے پھول لے کر آئے۔ تب ہم مانیں گے اور چھلانگ لگائیں گے۔"

"ہاں، بات تو آپ کی صحیح ہے، لیکن میں تھکا ہوا ہوں،اگر آپ اجازت دیں تو کل تک آرام کر لوں! کل شام کو میں آپ کو سمن لا کر دکھا دوں گا۔" بہزاد نے کہا۔ وہ دونوں مان گئےاور سب واپس آگئے۔

بہزاد گھر گیا۔ چندا نے انگلی کاٹ کر خون کی بوندیں ٹپکائیں تو وہ سمن کے پھول بن گئے۔ بہزاد نے سونے کے وہ سکے بھی پھولوں کے ساتھ لے لیے جو وہ دیو کے مکان سے اپنے ساتھ لایا تھا اور دریا پر پہنچ گیا۔ کشتی کے ذریعے اس نے دریا پار کیا اور دوسرے کنارے پر ایک تھیلے میں سب چیزیں ایک درخت میں چھپا دیں۔ یہ کام کر کے وہ واپس گھر آ گیا۔

اگلے دن شام کو سب لوگ دریا کے کنارے جمع ہو گئے۔ بہزاد نے انھیں کنارے پر انتظار کرنے کو کہا اور خود دریا میں چھلانگ لگا دی۔ رات کا اندھیرا پھیل رہا تھا، اسی لیے جب وہ دوسرے کنارے پر پہنچ کر چپکے سے باہر نکلا اور درخت پر چڑھا تو کوئی اسے دیکھ نہ سکا۔ وہاں سے اس نے تھیلا لیا اور دریا تیر کر پار کر لیا۔ واپس کنارے پہنچ کر اس نے بادشاہ کو پھول اور چالاک دکان دار کو سونے کے سکے دے کر بولا، "یہ آپ کے والد صاحب نے آپ کے لیے تحفہ بھیجا ہے اور کہا ہے کہ ایسے بہت سارے سکے میرے پاس ہیں، اگر وہ خود آئے تو میں اسے سب دے دوں گا۔"

سونے کے سکے دیکھ کر دکان دار کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور لالچ نے اسے اندھا کر دیا۔ اس نے فوراً دریا میں چھلانگ لگا دی۔ بادشاہ بھلے کیوں پیچھے رہتا، وہ بھی کود پڑا۔ دریا کے کنارے کھڑے لوگوں نے بہت دیر انتظار کیا، لیکن دونوں واپس نہ آئے۔ تھوڑے دنوں کے بعد دونوں کی لاشیں پانی میں تیرتی ہوئی ملیں۔ اس طرح بادشاہ کو اپنی بےوقوفی اور دکان دار کو اپنی چالاکی کی سزا مل گئی۔ اس کے بعد بہزاد کی زندگی ہنسی خوشی گزرنے لگی۔

ختم شد

تازہ ترین