• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہ چار دسمبر کی ایک سرد صبح تھی، افغانستان کے شہر جلال آباد میں سخت سردی کے باوجود ڈاکٹر تیتسو ناکامورا جنھیں افغان عوام پیار سے کاکا مراد بھی کہا کرتے تھے افغانستان میں نہری نظام کے انتہائی اہم منصوبے پر کام کا جائزہ لینے کے لیے اپنے محافظوں کے ہمراہ محوِ سفر تھے کہ راستے میں ہی اُنہیں مختلف اطراف سے آنے والی گاڑیوں نے گھیر لیا جس پر نامعلوم افراد سوار تھے۔

ڈاکٹر ناکامورا پھر بھی مطمئن تھے کیونکہ وہ علاقے کے غیر متنازع غیرملکی تھے، سب اُن سے واقف تھے اور اُن سے محبت کرتے تھے، کیونکہ ڈاکٹر ناکامورا نے افغان عوام کے لیے ناقابلِ فراموش خدمات سرانجام دی تھیں۔ ڈاکٹر ناکامورا اٹھائیس برس سے افغانستان میں مقیم تھے، یہاں ڈاکٹر ناکامورا نے نہ صرف جنگ زدہ لاکھوں افغانیوں کا علاج کیا بلکہ دو اسپتال بھی تعمیر کیے۔ یہی نہیں بلکہ ڈاکٹر ناکامورا اب علاج معالجے سے ہٹ کر افغان شہریوں کے لیے ہر ے بھرے افغانستان منصوبے پر کام کررہے تھے تاکہ لوگ ہتھیار چھوڑ کر کھیتی باڑی کے ذریعے اپنے خاندان کا پیٹ پال سکیں۔

ڈاکٹر ناکامورا نے جلال آباد میں شاندار نہری منصوبے شروع کیے تھے جس سے چھ لاکھ افغان شہریوں کو روزگار میسر آنا تھا۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا، افغانستان میں جنگ کے بادل بھی چھٹ رہے تھے، طالبان اور امریکہ مذاکرات کے ذریعے افغانستان میں امن و امان پر بات چیت کررہے تھے پھر ڈاکٹر ناکامورا جاپان جیسے ملک کے شہری تھی جس نے افغانستان کی بھرپور معاشی مدد کی تھی تو پھر کوئی کیوں اُن کو نقصان پہنچانا چاہے گا؟

یہی سوچ کر ڈاکٹر ناکامورا نامعلوم افراد کے گھیرے میں آکر بھی مطمئن تھے۔ تاہم آج صورتحال مختلف تھی کیونکہ یہ لوگ ڈاکٹر ناکامورا کو اغوا کرنے یا کسی طرح کا تاوان حاصل کرنے نہیں آئے تھے بلکہ اُنہوں نے گاڑی کو گھیرے میں لیتے ہی چارا طراف سے فائرنگ شروع کردی،

چند لمحوں میں ہی ڈاکٹر ناکامورا کا ڈرائیور اور ان کے گن مین ہلاک ہو چکے تھے اور پھر ایک گولی ڈاکٹر ناکامورا کو بھی لگی اور پھر دوسری گولی اور پھر بےشمار گولیوں نے ناکامورا کو چھلنی کرکے رکھ دیا تھا۔ اپنی جان دینے سے پہلے شاید ڈاکٹر ناکامورا بھی سوچ رہے ہونگے کہ اُنہوں نے اپنی زندگی کے اٹھائیس سال کس قوم کو دے دیئے، جس قوم کے لاکھوں لوگوں کی جان بچائی، جس کے لیے اسپتال بنائے، جس کے لیے نہری نظام تعمیر کیا، جس کے ریگستان کو نخلستان میں تبدیل کیا،

اِس قوم نے آج ان کی جان بھی لے لی۔ ڈاکٹر ناکامورا کو گیارہ سال قبل اغوا کے بعد قتل ہونے والا اپنا جاپانی دوست کوزویا ایتو بھی یاد آیا ہوگا جو ماہرِ زراعت تھا اور نہری نظام تیار کرنے کا ماہر تھا جس نے ننگر ہار کے ضلع کنڑ میں بہترین نہری نظام تعمیر کیا۔

اسے دو ہزار آٹھ میں طالبان نے اغوا کرکے قتل کردیا تھا، آج ڈاکٹر ناکامورا کو بھی دن دہاڑے اسی طرح قتل کردیا گیا۔ ڈاکٹر ناکامورا کی خدمات کو عالمی سطح پر سراہا گیا تھا۔ افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے دو ماہ قبل ڈاکٹر ناکامورا کو ان کی افغان عوام کے لیے شاندار خدمات پر افغانستان کی اعزازی شہریت بھی عطا کی تھی۔

اس سے قبل فلپائن کی حکومت نے ڈاکٹر ناکامورا کو امن کا ماگا سےایوارڈسے نوازا تھا جسے ایشیا کا نوبل انعام بھی کہا جاتا ہے۔ ڈاکٹر ناکامورا کو فکوکا ایوارڈ سے بھی دو ہزار تیرہ میں نوازا گیا۔ جاپانی حکومت نے انھیں دوہزار سولہ میں آرڈر آف رائزنگ سن سلور ریز سے بھی نوازا تھا جبکہ افغانستان میںبھی دوہزار اٹھارہ میں افغان نیشنل میڈل سے نوازا گیا تھا۔

ڈاکٹر ناکامورا نے صرف افغانستان میں ہی نہیں بلکہ پاکستان میں بھی چھ سال تک خدمات انجام دی تھیں۔ وہ انیس سو پچاسی سے انیس سو اکانوے تک پشاور میں افغان پناہ گزین کے لیے طبی خدمات انجام دیتے رہے۔ ان کا قول تھا کہ ہتھیار اور ٹینک مسائل کا حل نہیں ہوسکتے لیکن معاشی بہتری سے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔

وہ بیماریوں کے خاتمے کے لیے کہا کرتے تھے پانی کی ایک نہر وہ کام کرسکتی ہے جو سو ڈاکٹر مل کر نہیں کرسکتے۔ اُنہوں نے دریائے کنڑ پر گیارہ ڈیم تعمیر کیے۔ ڈاکٹر ناکامورا اب ہم میں نہیں ہیں لیکن ان کی خدمات افغانستان کی تاریخ میں ہمیشہ سنہرے حرفوں میں لکھی جائیں گی۔

افغان حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ڈاکٹر ناکامورا کے قاتلوں کو گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دے جبکہ بین الاقوامی سطح پر جاپان کو یہ دیکھنا ہوگا کہ ڈاکٹر ناکامورا کے قتل سے کون فائدہ اٹھانا چاہتا ہے شاید وہ ملک جو افغانستان کی تعمیر نومیں جاپان کا کردار کم کرنا چاہتا ہو۔

میری حکومتِ جاپان، حکومتِ افغانستان اور حکومتِ پاکستان سے درخواست ہے کہ ڈاکٹر ناکامورا کا نام امن کے نوبل انعام کے لیے مشترکہ طور پر آگے دیا جائے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین