• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ سترہ برسوں سے ترکی میں برسرِ اقتدار آق پارٹی میں طویل عرصے بعد پارٹی ہی کو تشکیل دینے والوں میں شدید اختلافات کے نتیجے میں نئی پارٹیاں ابھر کر سامنے آ رہی ہیں۔ اس سلسلے میں پہلے بھی کئی بار پارٹی کو تقسیم کرنے اور ایردوان کو اقتدار سے ہٹانے کی کوششیں کی جاچکی ہیں لیکن کوئی بھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکا تاہم اس وقت صدر ایردوان ہی کے دستِ راست اور سابق وزیراعظم احمد داؤد اولو نے ’’مستقبل پارٹی‘‘ کے نام سے 13دسمبر 2019کو نئی پارٹی تشکیل دی ہے۔

سابق وزیر اعظم احمد داؤد اولو نے 2001میں قائم ہونے والی آق پارٹی میں 2002میں رکنیت حاصل کی اور پھر 2002سے 2009تک وزیراعظم ایردوان کے مشیرِ اعلیٰ کے طور پر فرائض ادا کرتے رہے۔ اگرچہ 2007میں احمد داؤد اولو نے پہلی بار آق پارٹی کو ترک کرتے ہوئے واپس ’’شہر یونیورسٹی‘‘ جانے اور تدریس سے منسلک ہونے کی خواہش ظاہر کی تھی لیکن اس وقت صدارتی انتخابات میں کھڑی ہونے والی مشکلا ت کی وجہ سے ان کو اپنا ارادہ بدلنا پڑا اور 2009کے آق پارٹی کے کنونشن میں انہیں پارٹی کی ایگزیکٹو کمیٹی میں شامل کرلیا گیا اور یکم مئی 2009کو کابینہ میں ہونے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں انہیں ملک کے وزیر خارجہ کے فرائض سونپ دیے گئے اور انہوں نے 2009سے 2014تک وزیر خارجہ کی حیثیت سے فرائض ادا کیے۔ انہوں نے ’’صفر پرابلم‘‘ کے نام سے نئی خارجہ پالیسی تشکیل دی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کی سوچ میں تبدیلی آتی گئی اور پھر انہوں نے صدر ایردوان کو شام سے متعلق نئی پالیسی اپنانے پر قائل کیا۔ داؤود اولو ہی نے شام سے متعلق پالیسی مرتب کی تھی اور اسی دور میں نہ صرف ترکی کی تمام جماعتوں نے اس خارجہ پالیسی پر نکتہ چینی کی تھی بلکہ آق پارٹی کے اندر سے بھی اس پالیسی کے خلاف آواز یں بلند ہوئیں۔ ایردوان کے ملک میں صدارتی نظام متعارف کروانے اور صدر منتخب ہونے پر احمد داؤد اولو 27اگست 2014کو آق پارٹی کے پہلے ہنگامی کنونشن میں پارٹی کے چیئرمین منتخب ہو گئےاور 28اگست 2014کو عبوری طور پر وزیراعظم کے فرائض سنبھال لیے لیکن قومی اسمبلی میں کسی بھی پارٹی کو کل اکثریت حاصل نہ ہونے کی وجہ سے یکم نومبر 2015کو ملک میں قبل از وقت عام انتخابات کروانا پڑے جس میں احمد داوؤد اولو کی زیرِ قیادت آق پارٹی نے 49فیصد ووٹ حاصل کیے اور احمد داؤد اولو ایک بار پھر ملک کے وزیراعظم منتخب ہوئے لیکن صدر ایردوان کے ساتھ پیدا ہونیوالے اختلافات کی وجہ سے 22مئی 2016کو صرف چار ماہ بعد اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے اور پارٹی سے اپنے آخری خطاب میں کہا کہ وہ اپنے قائد اور اپنی پارٹی کے خلاف کسی قسم کا کوئی بیان جاری نہیں کریں گے اور نئی پارٹی کے تشکیل ہونے تک وہ اپنے اس وعدے پر قائم رہے اور بعد میں آق پارٹی کے کسی بھی الیکشن میں حصہ نہ لیا تاہم 2019کے بلدیاتی انتخابات میں آق پارٹی کے بڑے بڑے شہروں میں شکست پر آ ق پارٹی کو نشانہ بناتے ہوئے 6ستمبر 2019کو آق پارٹی کی رکنیت سے بھی استعفیٰ دے دیا۔

اب آتے ہیں ایردوان اور احمد داؤد اولو کے درمیان اختلافات کی طرف۔ صدر ایردوان اور وزیراعظم احمد داؤد اولو کے درمیان پہلا اختلاف ملک میں نئے صدارتی نظام کے بعد صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کے وقت ابھر کر سامنے آیا جب وزیراعظم احمد داؤد اولو نے صدر ایردوان کو اطلاع دئیے بغیر خفیہ سروس کے سربراہ حقان فدان کو رکنِ پارلیمنٹ منتخب کروانے کے لیے ان کا نام انتخابی فہرست میں شامل کرلیا جس پر صدر ایردوان نے شدید ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے ان کے نام کو انتخابی فہرست نکلوایا اور حقان فدان کو ان کے عہدے پر بحال کردیا۔ صدر ایردوان، وزیراعظم احمد داؤد اولو کی پناہ گزینوں سے متعلق پالیسی اور حکمتِ عملی سے بھی ناخوش تھے۔ علاوہ ازیں ترکی کی جانب سے شام کی سرحدوں پر گرائے جانے والے روسی طیارے کے بعد روس کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی وزیراعظم احمد داؤد اولو کی جانب سے ذرہ بھر بھی کوشش نہ کیے جانے پر دونوں رہنماؤں کے درمیان خلیج بڑھتی ہی چلی گئی اور آخرکار صدر ایردوان نے 29اپریل 2016کو پارٹی کی تشکیل سے متعلق فیصلہ اور ایگزیکٹو کونسل کے اختیارات داؤد اولو سے چھین لیے اور اس کے کچھ ہی عرصے بعد احمد داود اولو کواس وقت کاری ضرب لگی جب ماہ مئی کے آغاز پر ’’Pelican File‘‘کے نام سے نوٹیفکیشن نے سوشل میڈیا پرعوام کی توجہ حاصل کی۔ جسےاحمد داؤد اولو نے اپنی ہتک سمجھتے ہوئے پارٹی کی چیئرمین شپ اور وزارتِ عظمیٰ سے استعفیٰ دے دیا۔ احمد داؤد اولو کی پارٹی کے اقتدار میں آنے کے چانسز نہیں ہیں لیکن وہ دو سے چار فیصد کے لگ بھگ ووٹوں کے ذریعے صدر ایردوان کی پارٹی کو نقصان پہنچا سکتی ہے اور 2023میں انہیں نئے سرے سے صدر منتخب ہونے سے روک سکتی ہے۔

احمد داؤد اولو نےمیڈیا سے اپنی پارٹی کو متعارف کرواتے ہوئے ملک میں صدارتی نظام کو ختم کرتے ہوئے پارلیمانی نظام کو بحال کرنے، سیاسی جماعتوں کے پارلیمنٹ میں نشستیں حاصل کرنے سے متعلق دس فیصد ووٹ حاصل کرنے کی شرط کو ختم کرنے اور اراکین پارلیمنٹ جن کی سابقہ ساکھ کھو چکی ہے، کو بحال کرنے ملک میں نئے انتخابی نظام کو بھی متعارف کروانے کا وعدہ کیا ہے لیکن ابھی تک ان کی جماعت میں کسی قابلِ ذکر شخصیت یا رکنِ پارلیمنٹ نے شمولیت اختیار نہیں کی ہے۔

تازہ ترین