• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس میں کوئی شک نہیں کہ جنوبی ایشیا میں امن کو سب سے بڑا خطرہ بھارت سے لاحق ہے جس نے 5اگست 2019کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اپنے توسیع پسندانہ جارحانہ اور غاصبانہ عزائم کا پردہ چاک کر دیا اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے طاقت کے زور پر من مانیاں کر کے واضح کر دیا ہے کہ وہ نہ تو کسی عالمی تنظیم کو مانتا ہے ، نہ کسی قانون کو مانتا ہے اور نہ ہی اسے انسانی حقوق کی کوئی پروا ہے۔ کشمیرمیں طویل ترین کرفیو لگا کر اس نے تمام انسانی حقوق پامال کئے اور حیرتناک بلکہ شرمناک بات یہ ہے کہ خود کو مہذب کہلانے والے مغربی ملکوں نے بھارت کی اس کھلم کھلا بدمعاشی اور ریاستی دہشت گردی پر مظلوم کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کرنے کے بجائے خاموشی اختیار کر کے بھارت کی پشت پناہی کی ہے جو یقینی طور پر تاریخ میں مجرمانہ خاموشی کہلائے گی۔ بھارتی مظالم اور غیر قانونی اقدامات کی وجہ سے کوئی بھی رد عمل آیا تو وہ فطری ہوگا اور اس کے نتائج انتہائی خطرناک ہو سکتے ہیں۔ پہلے بھی خبردار کر چکا ہوں کہ اگر ایٹمی جنگ ہوئی تو اس کی تباہی،جانی اور مالی نقصانات سے قیامت سے پہلے قیامت کا منظر دنیا کے سامنے آ جائے گا۔ اس ایٹمی جنگ کو ٹالنے میں امریکہ ہی اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور ہونے کا دعویدار ہے اس لئے اس کی ذمہ داریاں بھی سب سے زیادہ ہیں۔ امریکہ دنیا کی بڑی طاقت ہونے کے ناتےکشمیر پراقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل در آمد یقینی بنانے میں تاریخی کردار ادا کر سکتا ہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیر اعظم پاکستان عمران خان سے ملاقات کے موقع پر اوراس کے علاوہ بھی مختلف مواقع پر اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ثالث کا کردار ادا کرنے پر خوشی محسوس کریں گے۔

پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کا بھی تاریخی پس منظر ہے اور امن کے قیام کے حوالے سے امریکہ کی طرح پاکستان کی خدمات، کردار اور قربانیاں بھی قابل رشک اور بے مثال ہیں۔ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں پاکستان شروع دن سے ہی امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی رہا ہے اور اس جنگ میں پاکستان کے 75ہزار سویلین اور کم و بیش دس ہزار فوجی جوانوں نے جانوں کا نذرانہ پیش کر کے دنیا میں قیام امن کو یقینی بنایا۔ پاکستان کی معیشت کو ڈیڑھ کھرب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا اور اس کے نتیجے میں ہماری معیشت قرضوں کے بوجھ تلے دب کر رہ گئی۔ یہاں جنگی ماحول اور امن کی خراب حالت کی وجہ سے ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری بری طرح متاثر ہوئی اوراس کے نقصانات براہ راست پاکستان کے عوام کو برداشت کرنا پڑے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات استوار کرانے میں بھی سب سے اہم کردار پاکستان نے ادا کیا تھا۔ پاکستان نے ہی اپنی ایئربیس چین جانے کے لیے امریکہ کو فراہم کی تھی اور پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے سوویت یونین کے بجائے امریکہ کا دورہ کرنے کو ترجیح دی اور وہاں سے ہی پاکستان اور امریکہ کے خصوصی تعلقات کی بنیاد رکھی گئی۔ پاکستان اور امریکہ مشکل وقتوں کے آزمائے ہوئے دوست ملک ہیں اگرچہ ان دونوں ملکوں کے تعلقات میں اُتار چڑھاؤ آتا رہا لیکن اس کے باوجود دونوں ملکوں نے خطے میں امن کے قیام کے حوالے سے جو کوششیں اور اقدامات کیے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں اور پوری دنیا اس کی معترف ہے۔

بھارت چونکہ آبادی کے لحاظ سے بڑا ملک ہے اور مختلف مصنوعات بیچنے والے ملکوں کے لیے بہت بڑی منڈی ہے اس لیے بھارت کے ساتھ اقتصادی مفادات جڑے ہوئے ہیں۔جن کا فائدہ بھارت اٹھاتا ہے ورنہ بھارت کے اندرونِ ملک اور عالمی سطح پر جرائم کی فہرست بہت گھناؤنی اور طویل ہے۔ ملک کے اندر اقلیتوں پر مظالم ڈھائے جانے سے لے کر دیگر ملکوں میں دہشت گردی کا نیٹ ورک چلانے تک بھارت ہر طرح کے جرائم میں ملوث ہے اور یہ حقیقت کلبھوشن یادیو کی رنگے ہاتھوں گرفتاری کی وجہ سے پوری دنیا کے سامنے آ چکی ہے۔اس کے باوجود بھارت کو عالمی برادری کشمیریوں پر پیلٹ گن کے استعمال سے روکنے کے بجائے، انسانی حقوق کا احترام کرنے کا سبق دینےاور بھارت کی سرزنش کرنے کے بجائے اس کے تمام مظالم اور جرائم کو جانتے ہوئے اپنی آنکھیں بوجوہ بند رکھتی ہے اور اس کی زبان خاموش رہتی ہے لیکن عالمی ضمیر کی مجرمانہ خاموشی اگر زیادہ طوالت اختیار کر گئی تو کشمیریوں اور بھارت کی دیگر اقلیتوں کے رد عمل کی صورت میں صورتحال انتہائی خطرناک اور نتائج بھیانک شکل اختیار کر سکتے ہیں۔ مداخلت کیلئے یہی بہترین وقت ہے امریکہ اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے خطے میں پائیدار امن کیلئے اپنا تاریخی کردار ادا کر سکتا ہے۔ خطے میں پائیدار امن کا واحد حل اقوام متحدہ کی منظور کردہ قراردادوں پر اس کی روح کے مطابق عملدر آمد یقینی بنانا اور کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینے میں ہی مضمر ہے۔

تازہ ترین