• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فاٹا، قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال اور سیاست کے تعلق کی نوعیت بہت سے پاکستانیوںکے ذہنوں میں سنجیدہ سوالات اٹھاتی ہے۔ کیا ان علاقوں یا ان میں سے کسی ایک علاقے میں فوجی آپریشن ہونا چاہئے؟ ان علاقوں میں ایسی کارروائی کے لئے آئین کی کونسی شق کا سہارا لیا جائے؟ کیا ایسا کرنے سے یہاںکے شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق یا ہائی کورٹس کی عملداری پر تو کوئی زد نہیں پڑے گی؟ ان دونوں علاقوں میں جاری بحران کا سیاسی حل تلاش کرنے کےلئے ایسے سوالات کا جواب ملنا ضروری ہے۔
آرمی چیف جنرل اشفاق کیانی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ فاٹا میں فوجی آپریشن ہو رہا ہے۔ اٹارنی جنرل عرفان قادر کے نزدیک یہ آپریشن آئین کے آرٹیکل245 کے تحت ہو رہا ہے۔ یہ آرٹیکل فوج کو ”سول حکومت کی معاونت سے کارروائی“ کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اس کےلئے اصطلاح ”اے اے سی پی“ استعمال کی جاتی ہے۔ اس کے نفاذ کے ساتھ ہی اُس علاقے، جہاں یہ آپریشن کیا جارہا ہو، شہریوںکے بنیادی حقوق اور ہائی کورٹس کی عملداری آرٹیکل199 کے تحت معطل ہو جاتی ہے اور جب تک فوجی آپریشن جاری رہے، انتہا پسندوں، دہشت گردوں اور تخریب کاروں کو قید میں رکھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ”تحریک ِ طالبان پاکستان“ جس نے ریاست ِ پاکستان کے خلاف جنگ شروع کر رکھی ہے، کو دشمن قرار دے کر ”ڈیفنس آف پاکستان رولز 1965“ کا اطلاق کیا جا سکتا ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ایک مشہور وکیل مسٹر احمر بلال صوفی کے مطابق” پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ ’غیر ملکی دشمن ‘ کی تشریح کرتی رہتی ہیں۔ اس تشریح کی روشنی میں فاٹا میں مسلح غیر ریاستی عناصر کو’ ’غیر ملکی دشمن‘ ‘ قرار دیا جا سکتا ہے۔ ایسے دشمن کو حکومت ِ پاکستان کی اجازت سے ہی عدالتی معاونت مل سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ”غیر ملکی دشمن“ کا تصور ریاست کی پالیسی سے مطابقت رکھتا ہے۔ یہ اُس” دشمن“ کو ملک، جس کے خلاف وہ آمادہ ¿ جنگ ہوتا ہے، کی عدالتوں سے اپنے حقوق کےلئے معاونت حاصل کرنے سے روکتا ہے۔ فاٹا اور قبائلی علاقوں کے برعکس جنرل کیانی اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ بلوچستان میںکسی قسم کی فوجی کارروائی ہورہی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں ایک بھی فوجی، کارروائی میں مصروف نہیںہے اور نہ ہی ”اے اے سی پی “ کا اطلاق بلوچستان پر ہوتا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ایف سی وزارت ِ داخلہ، نہ کہ جی ایچ کیو یا وزارت ِ دفاع کے ماتحت ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ بلوچستان میں ہائی کورٹ کی عملداری اور شہریوں کے بنیادی حقوق معطل نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ اس بات پر زور دے رہی ہے کہ بلوچستان کے ”گمشدہ افراد “ کو بازیاب کرایا جائے کیونکہ ان کے بارے میں شبہ ہے کہ وہ ایجنسیوںکی تحویل میں ہیں۔ چونکہ یہاں فاٹا کے برعکس آرٹیکل 199 کا نفاذ نہیںکیا گیا ہے اس لئے شہریوں کو غیر قانونی حراست میں نہیں رکھا جا سکتا۔
قبائلی علاقوں کی صورتحال میں ایک ابہام پایا جاتا ہے کیونکہ یہاں پائی جانے والی دہشت گردی کی”حدود“ سرحد پار تک پھیلی ہوئی ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور عدالتوںکی توجہ کا مرکز خاص طور پر وہ کیس رہا ہے جس میں تحریک ِ طالبان پاکستان کے گیارہ دہشت گردوں، جنہوں نے جی ایچ کیو اور آئی ایس آئی کے ”حمزہ کیمپ “ پر حملہ کیا تھا، کو 2010ءمیں انسداد ِ دہشت گردی کی عدالت نے عدم ثبوت کی بنا پر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل سے رہا کر دیا۔ ان رہا کئے جانے والوں میں سے چار کو پُراسرار طور پر ہلا ک کر دیا گیا جبکہ سات کو2011ءمیں کرم ایجنسی کے علاقے پارا چنار سے دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ دفاعی اداروں کا موقف ہے کہ ان ساتوں کو ایسے علاقے سے پکڑا گیا ہے جہاں آرٹیکل 245 کے تحت”اے اے سی پی“ کااطلاق ہوتا تھا چنانچہ اُن کو فوج جب تک چاہے حراست میں رکھ سکتی ہے تاہم انسانی حقوق کی تنظیمیں دفاعی اداروںکے بیان کو چیلنج کرتی ہیں جبکہ عدالت بھی اس معاملے کو نظر انداز کرنے کے موڈ میں نہیں ہے۔
یہ کیس دو نئی پیشرفتوں کی وجہ سے اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ دفاعی حکام کی منشا کے مطابق حکومت نے انسداد ِ دہشت گردی کے قوانین کو سخت کرتے ہوئے مشکوک افراد کو حراست میں رکھنے کی مدت میں اضافہ کر دیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ نئے پیش کئے جانے والے ” فیئر ٹرائل لائ“ کے تحت سول اور ملٹری ایجنسیاں ہر قسم کی گفتگو کو ریکارڈ کر سکتی ہیں اور اس کو دہشت گردی کے کیسز میں بطور ثبوت عدالت میں پیش کیا جا سکتا ہے تاہم مسئلہ یہ ہے کہ ان قوانین کو آرٹیکل245کی طرح دفاعی ادارے کسی بھی مقصد کے لئے استعمال کر سکتے ہیں اور جیسا کہ اڈیالہ جیل سے رہا ہونے والے سات قیدیوں ، جنہیں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا، کا کیس سامنے آیا، کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے مشکوک افراد کو فاٹا سے اٹھایا ہے۔ یہ بات بھی سب کے علم میں ہے کہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے مخصوص انتہا پسند جہادی گروہوں کا تحریک ِ طالبان پاکستان سے نظریاتی الحاق ہے اور وہ فاٹا میں جا کر تخریبی کارروائیوںکی تربیت بھی حاصل کرتے ہیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسے عناصر کو بھی آرٹیکل 245 کے تحت ”اے اے سی پی “ کے حوالے سے تحویل میں لیا جا سکتا ہے۔ یہاں وضاحت طلب معاملہ ہے:کہا جاتا ہے کہ اگر ریاست کے خلاف جنگ کرنے والے بلوچ قوم پرستوں سے گفت و شنید کرنے کی بات ہو رہی ہے۔
تاکہ انہیں صوبائی اور قومی سیاست کے دھارے میں واپس لایا جائے تو پھر فاٹا میں موجود طالبان کو بھی مذاکرات کا حق دیا جائے۔ اصول کی بات یہ ہے کہ اگر گفت و شنید ریاست کے آئینی خدوخال کے اندر ہو تو اس کی حمایت کی جانی چاہئے لیکن اگر ریاست گریز رویّے ہوں تو پھر ایسا نہیںہوسکتا۔ یہ بات قابل ِ غور ہے کہ اگرچہ فاٹا اور بلوچستان میں پُرتشدد کارروائیاں کرنے والے گروہوں کے افعال میں مماثلت پائی جاتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بلوچ قوم پرست اپنے وسیع تر آئینی حقوق کے حصول اور تحفظ کے لئے لڑ رہے ہیں جبکہ تحریک ِ طالبان ، پاکستان کے آئین کو ختم کرنے کے لئے ہتھیار اٹھائے ہوئے ہے۔ اس کے علاوہ ان مسلح گروہوں کو، جو ریاست کے ساتھ جنگ کررہے ہوں، مذاکرات کےلئے پہلے آرٹیکل5 کے تحت ریاست اور آئین سے اپنی وفاداری کا اظہا ر کرنا ہوگا۔ اگر بلوچ قوم پرست اگلے انتخابات میں حصہ لینے کےلئے تیار ہوں تو اُن کو عام معافی کا اعلان کرکے اس کا موقع دینا چاہئے۔ اس کے علاوہ ہونے والے نقصان کی تلافی اُسی طرح کی جانی چاہئے جیسے 1977-2002ءمیںکی گئی تھی۔ اگر طالبان بھی ہتھیار ڈال کر آئین ِ پاکستان سے وفاداری ظاہر کرتے ہیں تو اُن سے بھی بات کی جانی چاہئے۔ اس کےلئے ”اے اے سی پی“ کا خاتمہ کیا جانا چاہئے تاکہ اُ ن کے حقوق کی بحالی ممکن ہو سکے لیکن اگر وہ اس کے لئے تیار نہ ہوں تو پھر اُن کے خاتمے کے لئے فوجی آپریشن ہی واحد حل ہے۔
تازہ ترین