• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: ہمارے علاقے میں ایک عجیب وغریب رواج ہے کہ لوگ کسی بھی معمولی بات ،لین دین ،جائز وناجائز بات کو منوانے کے لیے چند افراد مرد یا عورتوں کو لے کر قرآن پاک اٹھا کر متعلقہ آدمی کے گھر جاتے ہیں اور اس شخص کو قرآن کا واسطہ دیتے ہیں کہ اب یہ کام کرو ،تمہارے گھر قرآن آچکا ہے ۔اس سلسلے میں وضاحت فرما دیں کہ ایسی صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟(سرداراسد زمان شاہ،موسیٰ خیل بلوچستان)

جواب: قرآنِ کریم رُشد وہدایت کا منبع ومحور ہے اور عمل کرنے کے لیے ایک ضابطہ ودستور کی حیثیت رکھتا ہے ،اسے اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کا ذریعہ بنانا معیوب ہے ،اسی طرح کسی ناجائز کام میں مخلوق میں سے کسی کی اطاعت جائز نہیں ہے: رسول اللہ ﷺ کاارشاد ہے : کسی ایسے امر میں مخلوق کی اطاعت لازم نہیں ہے(خواہ اس کا مرتبہ کتناہی بڑاہو) جس میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی لازم آتی ہو ، اطاعت تو فقط نیک کاموں میںلازم ہے۔(صحیح مسلم :4781)

امام احمد رضا قادری ؒ لکھتے ہیں: ’’ کسی کے قسم دلانے سے نہ اُس پر قسم عائد ہو،نہ اُس کام کاکرنا واجب ،حدیث میں ہے : حضور اقدس ﷺ نے فرمایا: ’’ قسم نہ دو،(مسند احمد بن حنبل:1894)‘‘۔معلوم ہوا کہ قسم دلانے سے ماننا واجب نہیں ہوتا ،ہاں! اگر حرج نہ ہو تومان لینا مستحب ہے ، (فتاویٰ رضویہ ،جلد13، ص: 498 )‘‘۔آپ کے علاقے کا یہ شِعار درست نہیں ہے کہ قرآن کریم لے کر کسی کے گھر چلے جائیں اور اس سے کہیں کہ تمہارے گھر قرآن آچکاہے ،اب یہ کام تم پر لازم ہوگیا ہے۔ 

اس طرح ہرگز کوئی بات کسی پر لازم نہیں ہوتی اورنہ قرآن کریم کو اپنی ذاتی اغراض کے لیے اس طرح استعمال کرنا درست ہے۔اس سے یہ تاثر دیاجاتاہے کہ اگر تم نے یہ بات نہ مانی توتم پر قرآن کی بے حرمتی کاوبال آئے گا ،اِس بات کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے ۔تاہم جس بات کے کرنے کا کہاجارہا ہے ،اگر وہ شرعاً درست ہے ،مستحسن ہے ، اِس میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے اوروہ شخص اپنی رضاورغبت سے وہ کام کرلیتاہے ،تو مستحسن امر ہے ،اس کی ممانعت بھی نہیں ہے ۔

البتہ سوال میں بیان کردہ طریقے کو اختیار کرکے کسی کام کے وجوب ولزوم کا عقیدہ رکھنا باطل اورخلافِ شرع ہے، سو اگر وہ شخص یہ کام نہ کرے تو اسے ملامت نہیں کیاجاسکتا ،کیونکہ کسی مباح یا مستحسن امر کے نہ کرنے پر ملامت کرنا درست نہیں ہے ، ملامت صرف ترکِ واجب پربھی کی جاسکتی ہے اور شرعی وجوب یہاں ثابت نہیں ہوتا ۔ہاں! بات مان لینے کو قرآن کے ادب پر محمول کرسکتے ہیں ،نہ ماننے کو قرآن کی توہین یا بے ادبی قرار نہیں دے سکتے ۔

تازہ ترین