اقصائے عالم سے پے درپے بدامنی، لاقانونیت اور خوں ریزی کی خبریں آ رہی ہیں، حالانکہ عالمی امن قائم رکھنے اور معاشی استحصال کی روک تھام کے لیے اقوامِ متحدہ کا ایک دیوہیکل انفراسٹرکچر موجود ہے۔ جنرل اسمبلی ہے، سیکرٹری جنرل ہیں اور سلامتی کونسل بھی۔ غربت، بیماری اور پسماندگی ختم کرنے کے عالمی ادارے سرگرم ہیں اور ملکوں کے مابین تنازعات طے کرنے کی خاطر عالمی عدالت ِ انصاف بھی قائم ہے۔ اِس کے علاوہ علوم و فنون، انسانی وسائل اور ٹیکنالوجی کو ترقی دینے کی اَن گنت ایجنسیاں دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اِن تمام انتظامات کے باوجود انسانوں کا خون بہت ارزاں ہے اور عدم تحفظ کا احساس سوہانِ روح بنا ہوا ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں نے روز روز کے قتل و غارت سے محفوظ رہنے کے لیے ایک بےمثل سیاسی جدوجہد کے ذریعے اپنے لیے ایک جداگانہ وطن حاصل کیا جس کے نتیجے میں واہگہ بارڈر وجود میں آیا۔ اِس کے ایک طرف وہ ریاست وجود میں آئی جسے عصرِ جدید میں اسلام کی تجربہ گاہ بننا تھا اور دُوسری طرف ہندوؤں کی اکثریت والی سیکولر رِیاست کی بنیاد رکھی گئی۔ مقصود یہی تھا کہ یہ دونوں قومیں اپنے اپنے ملکوں میں امن سے رہیں گی اور اقلیتوں کی جان، مال اور مذہبی آزادی کی حفاظت کریں گی، مگر ہوا یہ کہ ہندو قیادت نے بھارت کو مہابھارت میں تبدیل کرنے کی راہ اختیار کی اور اُس نے خود کو برطانوی حکومت کا جاں نشین سمجھ لیا۔ اِسی جنون کے تحت وزیراعظم نریندر مودی نے بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کی شہریت ختم کرنے کے لیے قانون میں تبدیلی پارلیمنٹ سے منظور کرا لی ہے۔
شہریت کا ترمیم شدہ قانون اقوامِ متحدہ کے وضع کردہ اصولوں کے منافی اور بھارت کے دستور کی روح کے خلاف ہے اور اِس سے فسطائی نسلی تعصب کی بُو آتی ہے۔ بھارت کے آئین میں یہ بنیادی اصول طے تھا کہ مذہب، نسل اور زبان کی بنیاد پر شہریوں میں تفریق نہیں کی جائے گی اور وہ قانون کے سامنے برابر ہوں گے۔ ہندوؤں کی انتہاپسند تنظیموں اور ہندو توا کے نظریے کے باوجود بھارت کے معاشرے میں وہ روشن خیال طبقات بھی فروغ پاتے رہے جو ایک جمہوری اور وسیع البنیاد نظامِ حکومت پر یقین رکھتے ہیں۔ یونیورسٹیوں، کالجوں اور تحقیقی اداروں میں سیکولر تصورات نشوونما پاتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب مذہبی اور نسلی بنیادوں پر شہریت ایکٹ میں ترمیم کی گئی، تو اِس کے خلاف پہلی آواز یونیورسٹیوں سے بلند ہوئی جس کی گونج حیرت انگیز تیزی سے پورے ملک میں پھیل گئی ہے۔ بھارت کی آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی ریاست اُترپردیش میں خوں ریز ہنگامے پھوٹ پڑے اور پولیس کی گولیوں سے دو درجن سے زائد شہری ہلاک ہو گئے۔ ریاست کرناٹک کے دارالحکومت بنگلور میں کئی روز سے کرفیو نافذ ہے اور شمالی اور مشرقی ریاستوں میں مظاہرین کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی ہے جن میں خواتین پیش پیش ہیں۔ جامعہ ملّیہ کی طالبات نے جس عزیمت اور شجاعت سے پولیس کو پسپا ہونے پر مجبور کیا، اُس سے پتا چلتا ہے کہ بھارت کے اندر ایک بڑی خوش آئند تبدیلی کروٹ لے رہی ہے۔ مظاہروں میں روز بروز شدت آتی جا رہی ہے اور اُن میں سکھ، عیسائی، دلت اور مسلمان شانہ بشانہ حصہ لے رہے ہیں۔
بھارت میں جو چار سُو احتجاج کا طوفان اُٹھا ہوا ہے، اُس کی بنیادیں خاصی گہری معلوم ہوتی ہیں۔ مغربی بنگال، دہلی اور کیرالہ کے وزرائے اعلیٰ نے ترمیم شدہ متنازع شہری ایکٹ پر عمل درآمد سے انکار کر دیا ہے اور مہاراشٹرا کے بعد حکمران جماعت بی جے پی جھاڑ کھنڈ کے حالیہ انتخابات میں بھی ہار گئی ہے اور یوں بھارت میں عوام کی متوازن طاقت جگہ بنا رہی ہے۔ دراصل شہریت کے ترمیم شدہ قانون کا مقصد آسام کے اندر مسلمانوں کی طاقت کو توڑنا اور بنگلہ دیش سے آئے ہوئے چالیس لاکھ مسلمانوں کو شہریت کے حقوق سے محروم کرنا ہے۔ آسام ریاست میں تین کروڑ سے زائد مسلمان آباد ہیں جو پورے بھارت میں ایک مقام پر سب سے بڑی سیاسی طاقت ہے۔ اِسی بنا پر بعض تجزیہ کاروں کی رائے میں بھارت کی فسطائی حکومت کو سب سے بڑا چیلنج کولکتہ سے ملے گا جہاں پاکستان کے خلاف بھارت نے مکتی باہنی قائم کی تھی۔ مَیں تو اپنے اِس تجزیے کا کئی بار ذِکر کر چکا ہوں کہ مستقبل میں ہونے والی جنگ بھارت کی سرزمین پر لڑی جائے گی۔ متنازع شہریت ایکٹ کے خلاف امریکی تنظیمیں بھی حرکت میں آ چکی ہیں اور کانگرس میں بھی ارتعاش پایا جاتا ہے۔ پہلی بار مسلمانوں کی تنظیم او آئی سی نے بھی بھارت کو سخت تنبیہ کی ہے کہ مسلمانوں پر زندگی حرام کرنے سے اجتناب کیا جائے اور اُن کی مساجد کے تحفظ کا پورا پورا اِہتمام کیا جائے۔ ملائیشیا کے وزیراعظم جناب مہاتیر محمد نے بھی کوالالمپور میں سربراہ کانفرس کے آخری اجلاس میں نریندر مودی کی مسلم دشمن پالیسیوں پر کڑی تنقید کی ہے اور کشمیر کا تنازع بھی کمال جرأت سے اُٹھایا ہے اور آج عالمی فضا میں ایک تغیر اُبھرتا دکھائی دے رہا ہے۔
واہگہ بارڈر کی دوسری جانب پاکستان میں بھی ایک بحران کے بعد دوسرا بڑا بحران جنم لے رہا ہے۔ اِس کی بڑی وجہ دستور اور قانون کی بالادستی کے بجائے طاقت کی حکمرانی اور عقل کی نارسائی بتائی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے اِداروں کے تصادم کا امکان بڑھتا جا رہا ہے۔ عام شہری مہنگائی، بےروزگاری اور پھیلی ہوئی نااُمیدی سے بےحد پریشان ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان شدید مخاصمت نے صورتِ حال مزید بگاڑ دی ہے۔ عوام کا ایک کثیر طبقہ فوج کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ سے اچھی توقعات وابستہ کیے ہوئے ہے کہ وہ اپنی معاملہ فہمی اور اِیثار کیشی سے معاملات کو ڈِی ریل ہونے سے بچا سکتے ہیں اور عوام کی حمایت سے بھارت کی جنونی قیادت کو دندان شکن جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اب ہر ادارے اور ہر سیاسی جماعت کو اپنی اپنی کوتاہیوں کا کفارہ ادا کرنا اور قائداعظم کے نقشِ قدم پر چلنے کا قومی ایجنڈا ترتیب دینا ہوگا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)