• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بعد از سلام دست بدستہ عرض ہے کہ اس عاجز کو مصدقہ ذرائع سے اطلاع ملی ہے کہ حضورکے زیر سایہ ایک پبلک ریلیشننگ آفیسر ،جسے عرف عام میں پی آر او کہا جاتا ہے ،کی آسامی خالی ہے ۔یہ احقر اس آسامی کے لئے اپنی خدمات پیش کرنا چاہتا ہے ،مہربانی فرما کر قبول فرمائیں اور جنت کے ڈی ایچ اے فیز ون میں گھر بک کروائیں ۔یوں تو میری دعا ہے کہ خدا وند آپ کو عمر خضر عطا کرے مگر اس دنیا کی چکا چوند بے حد عارضی ہے(سامان سو برس کا پل کی خبرنہیں وغیرہ وغیرہ) لہٰذا اصل فکر اس دائمی زندگی کی ہونی چاہئے جہاں ہم سب نے بالآخر قیام کرنا ہے ،اسی لئے فدوی نے آپ کے لئے جنت کی بہترین لوکیشن میں گھر بُک کروانے کا نہایت آسان نسخہ تجویز کیا ہے۔ مجھ غریب کو اپنا پی آر او بھرتی کرلیں،دنیا اور آخرت دونوں سنور جائیں گی۔کیسے ؟ اچھا سوال ہے ۔ذرا پھیپھڑوں میں دھواں کھینچے بغیر سگریٹ کا کش لے لوںپھر بتاتا ہوں۔
حضور،قصہ کچھ یوں ہے کہ میں ماں باپ کا اکلوتا لڑکا ہوں ،والدین کو بچپن سے ہی شوق تھا کہ ان کا بیٹا پڑھ لکھ کر بڑا افسر بنے ،مراد یہ کہ علاقے کا پٹواری بن جائے ۔یہی سوچ کر انہوں نے مجھے گورنمنٹ پرائمری سکول ڈنگہ میں داخل کروایا تاکہ روز اول سے ہی میری شخصیت میں نکھار آ سکے اور میں آنے والے کڑے وقت کے لئے خود کو تیار کر سکوں۔وہاں مجھے ماسٹر کالے خان جیسے شفیق اوربا اصول استاد کی رہنمائی میسر آئی ۔آپ کی شفقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بچوں کو ”جہاز“ بنا کر مارنے کی قبیح رسم کے سخت خلاف تھے ۔البتہ تھوڑی بہت ایذا رسانی کو بچوں کی اخلاقی تربیت کے لئے ضروری گردانتے تھے ،اس مقصد کے لئے انہوں نے ایک نہایت دلچسپ کھیل ایجاد کر رکھا تھا۔جماعت کے تمام بچوں کو روزانہ ایک دائرے میں کھڑا کرکے انہیں آنکھیں بند کرنے کا حکم دیتے ،پھر randomlyہر بچے کی گردن پر بید سے ضرب لگاتے ۔لطف اس کھیل میں یہ تھا کہ آخر تک یہ پتہ نہ چلنے دیتے کہ بید کھانے کی اگلی باری کس کی آئے گی چنانچہ ہر بچے کی خواہش ہوتی کہ اسے پہلے ہی ضرب لگا دی جائے۔ اب کہاں رہے ایسے شفیق استاد ۔با اصول اس قدر کہ گاﺅں کے چوہدری کے بچوں سے بھی ویسا ہی سلوک کرتے جیسے مجھ غریب کے ساتھ۔جب بھی چوہدری کے گھر سے اناج کی بوریاں آتیں ،ہم غریب بچے ہی ان بوریوں کو کمر پر لاد کر ماسٹر صاحب کے گھر پہنچاتے۔آپ کا اصول نہایت سادہ تھا،فرماتے تھے جس کا کام اسی کو ساجھے۔فدوی نے میٹرک گورنمنٹ ہائی سکول چنیوٹ سے کیا اور پھر اعلیٰ تعلیم کی غرض سے گورنمنٹ کالج حافظ آباد چلا آیا۔یہاں میں نے خوب دل لگا کر پڑھا،ماں باپ کی دعائیں رنگ لائیں ، خدا نے مہربانی فرمائی اور فقط چھ سال کی قلیل مدت میں ایف کی ڈگری حاصل کر لی،تھرڈ ویژن۔یہاں اپنے ایک محسن ٹونی عرف ٹی ٹی مرحوم کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہوگی،آپ نے آخری سال اپنی ذاتی نگرانی میں اس فقیر کے تمام پرچے حل کروائے ،ممتحن نے بھی اس ضمن میں بھرپور تعاون کیا ۔ ٹی ٹی مرحوم گذشتہ سال ایک پولیس مقابلے میں شہید ہوگئے ،خدا ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے، بقول غالب حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا وغیرہ وغیرہ۔
مائی باپ ،آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ یہ میں کیا اپنی کہانیاں لے کر بیٹھ گیاہوں،دراصل اس عاجز کو روایتی سی وی سے سخت چڑ ہے،یوں سمجھئے کہ میں روایت شکن ہوں ،سو ان ٹوٹے پھوٹے الفاظ کو ہی سی وی سمجھئے ۔مجھے اپنا پی آر او بھرتی کرنے کے سے آپ کو جو فوائد حاصل ہوں گے ان کا احاطہ اس درخواست میں تو نہیں کیا جا سکتا البتہ کچھ چیدہ چیدہ فوائد گنوائے دیتا ہوں ۔عالی جاہ ،سب سے پہلے تو یہ فدوی آپ کی ایسی امیج بلڈنگ کرے گا کہ دنیا عش عش کر اٹھے گی ۔اس کے لئے ضروری ہے کہ فوری طوری پر آپ کا ایک فوٹو شوٹ کروایا جائے جس میں آپ کا ایک casual انداز سامنے آئے ،لوگ وردی والی تصاویر دیکھ کر بور ہوچکے ہیں ،وہ ”چینج“ چاہتے ہیں ،ویسے بھی آج کل ہر کسی کی زبان پر ”تبدیلی“ کا نعرہ ہے تو کیوں نہ یہ ”تبدیلی“ آپ کی طرف سے آئے ۔سو اس ضمن میں ضروری ہے کہ نیلی جینز اور سفید شرٹ میں کھلے کف کے ساتھ گالف کھیلتے ہوئے چند تصاویر اتروائی جائیں اور انہیں فیس بک پر اپ لوڈ کر دیا جائے ۔ایک گھنٹے میں پانچ ہزار likesنہ ملیں تو بے شک پہلے مہینے کی تنخواہ نہ دیجئے گا۔
عالی مرتبت ،دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ آپ کو اس احقر کی شکل میں آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز لکھنے کے لئے ایک معقول بندہ مل جائے گا ۔معافی چاہتا ہوں ،برا نہ منائیے گا مگر یوں لگتا ہے جیسے آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز کوئی صوبیدار میجر لکھتا ہے ۔ویسے پچھلے ایک آدھ سال میں معیار میں بہتری آئی ہے وگرنہ پہلے تو غالباً کوئی بیٹ مین لکھا کرتا تھا۔آپ میری ایف اے کی ڈگری پر نہ جائیے ،میں اچھے وقتوں کا پڑھا ہوں ،طلسم ہو شربا سرہانے رکھ کے سوتا ہوں اور قصہ چہار درویش تو مجھے زبانی یاد ہے۔آپ بے فکر ہو کر مجھے یہ پریس ریلیز والا کام سونپئے اور پھر دیکھئے میں ان اخبار نویسوں کے کیسے چھکے چھڑاتا ہوں جوہر دم آپ کی ذات کے بارے میں بدگمانیاں پھیلاتے رہتے ہیں ۔
سرکار ،مستقبل میں جب بھی آپ کالم نگاروں اور اینکر پرسنز کو آف دی ریکارڈ بریفنگ کے لئے بلائیں تو مجھے اپنے ساتھ بٹھائیے گا تاکہ میں نازک معاملات کو آپ مشورے دے سکوں ۔ویسے تو یہ بات سورج کو سویلین چراغ دکھانے کے مترادف ہوگی لیکن پھر بھی فدوی سمجھتا ہے کہ سپہ سالار اعظم کو اس مشاورت سے خاطر خواہ فائدہ ہوگا ۔جیسے میں نے عرض کیا میری ڈگری پر نہ جائیے گا ،میں نے میکاولی کی ”پرنس“ رٹّی ہوئی ہے اور میں آپ کو وہ سنہری مشورے دے سکتا ہوں جو حضور کی ایسی امیج بلڈنگ کر سکتے ہیں کہ تاریخ میں سلطان صلاح الدین ایوبی کی بھی نہ ہوئی ہوگی۔ مثلاًمیمو گیٹ والے کیس میں نہ جانے کس سویلین نے آپ کو مشورہ دیا تھا کہ منصور اعجاز کے مضمون پر ہنگامہ کھڑا کر دیتے۔حضور چھوٹا منہ اور بڑی بات،زیادہ سے زیادہ آپ کو چاہئے تھا کہ اس مضمون کو اخبارسے پھاڑ کر نکالتے اور اس میں پکوڑے رکھ کر کھا لیتے، ساتھ میں چائے پیتے اور سگریٹ کا کش لگاتے اور دھواں احتیاطاً پھیپھڑوں سے باہر کہ سرطان کا باعث بنتا ہے ۔اللہ اللہ خیر سلہ۔ خیر جو ہوا سو ہوا،آئندہ کے لئے یہ فقیر آپ کے ہمراہ ہوگا سو فکر کی ضرورت نہیں (فقیر کو)۔
آخر میں فقط اتنی گذارش ہے کہ سگریٹ نوشی مضر صحت ہے ،اس عادت کو ترک کردیں تو بہتر ہے اور اگر ترک نہیں کر سکتے توکم ہی کردیں ۔اس کار خیر میں بھی یہ فدوی آپ کی مدد کر سکتا ہے اور وہ یوں کہ جب میں آپ کے ساتھ ہوں گا تو حضور کے آدھے سگریٹ پی جایا کروں گا ،آپ کی سگریٹ نوشی کم ہو جائے گی،مجھ غریب کا خرچہ کم ہو جائے گا۔آخرامریکہ بھی تو ہماری ایسی ہی مدد کرتا ہے !
تازہ ترین