• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعظم پرویز اشرف کا اخبارات میں یہ بیان پڑھ کر میرا تو ”ہاسا“ نکل گیا کہ ہم نے ”پانچ سال میں وہ کام کئے ہیں جو دوسرے 65سال میں نہیں کر سکے“۔ لیکن بعد میں مجھے احساس ہوا کہ ہنسنے والی تو اس میں کوئی بات نہیں ۔ اب پورے پانچ سال میں ہونےوالے ان کے کارنامے لوگوں کو گنوانا شروع کئے تو اگلے پانچ سال لگ جائیں گے۔ انکے تازہ ترین دو کارنامے عوام کے گوش گزار کرنے ہیں تاکہ عوام یہ اندازہ لگا سکیں کہ سچ اور جھوٹ کیا ہے۔ حکمران جماعت پی پی کی اپنی اتحادی جماعت ایم کیو ایم سے محبت اور نفرت کی اعصاب شکن نشیب و فراز کی دلگداز کہانیاں تو بہت ہیں لیکن زندگی بھر نہ بھولنے والی یعنی ناقابل فراموش کہانی بلدیاتی آرڈیننس 2012ءکی ہے۔ اس بلدیاتی آرڈیننس کی منظوری کے لئے دونوں جماعتوں کے درمیان محبت اور نفرت کی کہانی چار سال چلتی رہی۔ دو جماعتوں کی کور کمیٹی کے اجلاس ساڑھے تین سال جاری رہے مگر وہ کسی حتمی نتیجے تک نہ پہنچ سکے 3ستمبر 2012ءکو ایم کیو ایم کے وفد کی آصف علی زرداری سے ملاقات ہوئی تو اس کے بعد یہ مذاکرات جو ساڑھے تین سال سے چل رہے تھے اچانک ان میں تیزی آئی اور راتوں رات دو جماعتیں آرڈیننس 2012ءپر متفق ہوگئیں۔گو ان مذاکرات میں گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کابڑا مرکزی کردار تھا کیونکہ پروٹوکول کے مطابق وزیراعلیٰ گورنر ہاﺅس آتا ہے نہ کہ گورنر وزیراعلیٰ ہاﺅس۔ یہاں تو 6ستمبر کی رات گورنر اپنے وفد کے ہمراہ وزیراعلیٰ ہاﺅس گئے، مذاکرات کامیاب کرانے کے بعد پھر رات ساڑھے تین بجے واپس گورنر ہاﺅس آکر اس آرڈیننس پر دستخط کئے اور اسی فجر ساڑھے چار بجے صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے میڈیا کو بریفنگ دی کہ لوکل باڈیز کے آرڈیننس 2012ءپر گورنر نے دستخط کر دیئے ہیں اور یہ 7ستمبر2012ءسے ہی نافذ العمل ہوگا۔ پی پی اور ایم کیو ایم نے رات کے اندھیرے میں سب کچھ اس طرح فائنل کیا جیسے انہیں ڈر ہو کہ کہیں سورج طلوع ہونے سے ان کے ساتھ ”معصوم“ چہرے بے نقاب نہ ہوجائیں۔ ان دونوں جماعتوں نے تو اپنی دیگر اتحادی جماعتوں سے مشاورت کو بھی گناہ سمجھا۔ اس آرڈیننس کے بعد ان کی اتحادی جماعتیں نہ صرف حکومت سے الگ ہو گئیں بلکہ سندھ کی قوم پرست جماعتوں سے مل کر سخت احتجاج اور مظاہرے کئے۔ سندھ کے لوگوں نے اس بلدیاتی آرڈیننس کو سندھ کے لوگوں کے ساتھ دشمنی سے تعبیر کیا لیکن پی پی اور ایم کیو ایم کے کانوں پہ جوں تک نہ رینگی اور اچانک 22فروری کو سندھ اسمبلی نے کثرت رائے سے سندھ پیپلز گورنمنٹ ایکٹ 2012ءکو منسوخ کر کے سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 1979ءبحال کر دیا پھرگورنر عشرت العباد کو بیرون ملک چھٹی پر بجھوا کر قائم مقام گورنر سے دستخط کروا لئے گئے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ بل اسمبلی کے اجلاس کے ایجنڈے پر نہیں تھا اور نہ ہی اس پر کوئی بحث کی گئی بلکہ صرف گیارہ منٹ میں تمام کارروائی مکمل کر کے اسے پاس کر دیا گیا اور پھر اس کے بعد اتھل پتھل شروع ہوگئی، سندھ بھر میں نئے ایڈمنسٹریٹر اور دیگر انتظامی لوگ تبدیل کر دیئے گئے ۔ لگتا ہے پی پی اور ایم کیو ایم کے درمیان ستمبر 2012ءسے شروع ہونے والا ہنی مون اب ختم ہو چکا ہے۔ گو لوگ تو اس وقت بھی محسوس کرتے تھے کہ یہ ایکٹ ایک بے جوڑ شادی کی طرح ہے اور دونوں جماعتوں نے انہیں نظر انداز کر کے اپنے اپنے مفادات کو تحفظ دیا تھا اب دونوں نے یہ محسوس کیا کہ الیکشن قریب ہیں اور مخالف جماعتیں یہ ایکٹ ان کے خلاف بطور چارج شیٹ استعمال کریں گی تو یہ نیا ڈرامہ رچایا گیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے 16ستمبر2012ءکو انہی سطور میں لکھا تھا کہ ”رات کے اندھیرے میں کی جانےوالی اس بندر بانٹ سے دونوں جماعتوں کے ہاتھ میں کچھ نہیں آئے گا“۔ آج یہ چیز ثابت ہو رہی ہے مزید الیکشن کے بعد عوام خود اپنی کھلی آنکھوں سے نفرت اور محبت کی اس لازوال کہانی کا حتمی انجام بھی دیکھ لیں گے۔ پی پی کی حکومت عوام کےساتھ جو دوسرا بڑا دھوکہ کر رہی ہے وہ نئے صوبوں کے قیام کے نام پر ہے یہ عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کےلئے اس حد تک چلی گئی ہے جس سے نہ تو عوام کو فائدہ ہوگا نہ ہی پی پی کو البتہ یہ ملکی سلامتی کو خطرے میں ڈال دے گا کیونکہ نئے صوبوں کے قیام کے حوالے سے پنجاب اسمبلی نے قرارداد پاس کر کے جو مینڈیٹ دیا اسے صوبہ بناﺅ کمیشن نے نظر انداز کرتے ہوئے ایک نئے صوبے کی تجویز کا مسودہ قانون پارلیمینٹ کے سپرد کر دیا۔ کمیٹی نے نئے صوبوں کے قیام سے متعلق 24ویں آئینی ترمیم کے بل کی رپورٹ سینیٹ میں پیش کر دی ہے۔ اب حکومت کا خیال ہے کہ وہ اپنی مدت ختم ہونے سے پہلے اس کو منظور کرا لے گی۔گو یہ کسی صورت میں ممکن نظر نہیں آتا کیونکہ نہ تو اب حکومت کو وہ اکثریت حاصل ہے جس کی ضرورت ہے اور پھر اگر منظور بھی ہو جائے تو یہ پنجاب اسمبلی کی قررارداد کی نفی ہوگی ۔ اس سے پی پی کے ہاتھ میں کچھ نہیں آئے گا البتہ پیپلز پارٹی کے ہی سینیٹر رضا ربانی نے سینیٹ میں پیش کی جانے والی رپورٹ میں چار صفحات پر مشتمل جو اختلافی نوٹ لکھا ہے اس میں پنجاب میں نئے صوبوں کے قیام کو وفاق کےلئے خطرہ قرار دیا ہے، اسلئے نئے صوبے بنانے کےلئے یہ وقت نہیں اور نہ ہی نیا صوبہ کامیاب ہو سکتا ہے۔ الیکشن میں اس کو سیاسی نعرے کے طور پر استعمال کیا جائےگا ، مگر عوام کو ہوشیار رہنا ہوگا کیونکہ حکمران تو ملکی مفادات اور سلامتی کو اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھانے میںکوئی کسر نہیں چھوڑیں گے، عوام کو ان کی کسی بات پر یقین نہیں کرنا چاہئے ورنہ ایسی ایسی ناقابل فراموش کہانیاں جنم لیں گی کہ آئندہ نسلیں بھی نہیں بھول پائیں گی!
تازہ ترین