• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

برطانوی محقق ایلائیس البینیا نے اپنی کتاب "Empires of Indus" میں مزید لکھا ہے کہ دہلی میں دو سال تک رہنے کے دوران دریائے سندھ کے حوالے سے اس کے سامنے ایسی کئی چیزیں آئیں جن میں کسی کا مذاق اڑانا‘ ناموں کو بگاڑنے کا عمل اور تاریخ کی پکار بھی شامل ہے مگر میرا خیال ہے کہ یہ سب کچھ دریائے سندھ کی وجہ سے ہے ’وہ دریا جو تبت کی بلندیوں سے شروع ہوتا ہے اور کراچی کے نزدیک Arabian Seaمیں داخل ہوتا ہے۔ دریائے سندھ نے اپنے پانی کو ایک خاص صورت دینے کی کوشش کی ہے اور یہ صورت دریا کے کناروں پر مضبوط قلعوں کی تعمیر اور لوک گیتوں کے ترنم کا سبب بھی ہے، دریائے سندھ میں دیگر دریا بھی شامل ہوتے ہیں یہ دریا اپنے ساتھ سونا بھی لاتا ہے‘ تب ہی تو اسے ’’ناگ دیوتا‘‘ کی رہائشگاہ بھی کہا جاتا ہے۔ میں تاریخ کے اوراق میں جھانکنے اور تجزیہ کرنے کے لئے پاکستان آئی‘ یہ وہ تاریخ ہے جس نے دنیا پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں‘ پاکستان مغرب کی ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے نتیجے میں دہشت گردی کا شکار رہا ہے‘ سندھ ماتھری (Indus Valley) جو سیاست، مذہب اور ادب کی تاریخ کا تسلسل ہے اور یہ تاریخ جو صدیوں تک محیط ہے اس میں تبت اور ہندوستان بھی ہمسفر ہیں۔ مجھے سندھو ماتھری کی اس تاریخ کی تلاش ہے اور اس کے لئے مجھے دریائے سندھ کے کنارے سفر کرکے لوگوں سے ان کے تاریخی ورثے کے بارے میں معلومات حاصل کرنی تھیں۔ مجھے اس کی تلاش میں دریائے سندھ کی مخالف سمت میں سفر کرنا پڑا‘ وہ دریائے سندھ جس نے کراچی میں پاکستان کو جنم دیا اور ہزاروں سال پہلے تبت سے یہ سفر شروع کیا تھا‘ جب خود اس دریا کا جنم ہوا تھا‘ اس سفر میں دریائے سندھ کو مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے‘ یہ نام یقینی طور پر بہت زیادہ خوبصورت ہیں‘ سندھ میں اسے ’’پورالی ندی‘‘ (رخ تبدیل کرنے والا دریا) کہا جاتا ہے کیونکہ میدانی علاقے میں داخل ہونے کے بعد یہ دریا اپنی مرضی سے سمندر کی طرف سفر کرتا ہے اور اب تک کبھی ایک جگہ سے تو کبھی کسی اور مقام سے سمندر میں داخل ہوتا ہے۔ یہ نام دریائے سندھ کو اس کی وسعت کی وجہ سے دیئے گئے اور یہ دریا ماتھریوں (Valleys) اور تہذیبوں کو جنم دیتا رہا ہے۔ افغانستان کے قرب و جوار والے علاقوں (خیبرپختونخوا کے علاقوں) میں اس کا نام ’’نیلاب‘‘ (نیلا دریا) ہے‘ پانی کا رنگ نیلا ہونے کی وجہ سے اس دریا کا یہ نام بھی پڑا‘ اسے شیر دریا بھی کہا جاتا ہے اور اسے ’’اباسین‘‘ دریائوں کے باپ کا خطاب ملا ہے‘ پہاڑی علاقوں سے دریائے سندھ کے بہنے کے دوران چونکہ ان علاقوں کے لوگ مختلف زبانیں بولتے ہیں اور مختلف مذاہب سے ان کا تعلق ہوتا ہے لہٰذا اس کے نام بھی مختلف ہوتے ہیں‘ بلٹی کے لوگ دریائے سندھ کو ’’گیمتش‘‘ یعنی عظیم سیلاب اور ’’سوفو‘‘ (Tsah-Fo) کے نام سے پکارتے ہیں‘ سوفو کا دریا کا مطلب ’’نر دریا‘‘ ہے۔ لداخ اور تبت میں اسے ’’سنگی سامپو‘‘ (Sange Tsompo) یعنی شیر دریا کہا جاتا ہے۔ اس وقت ہندوستان کی تقسیم اور فوجی سرحدی چوکیوں کے قائم ہونے کے نتیجے مین دریا پر بسنے والے لوگوں کو ایک دوسرے سے الگ کردیا گیا ہے‘ اس کے باوجود وہاں کے لوگوں کے قدیم تعلقات اب بھی برقرار ہیں‘ اس دریا کے پُراسرار ہونے نے مجھے اس سفر کے لئے ذہنی طور پر تیار کیا‘ اس کی وجہ سے اس کتاب کا مرکزی نکتہ بھی یہی دریا ہے۔ یہی دریا وہاں کے لوگوں کو مطمئن رکھتا ہے‘ سندھ کے صحرائوں سے تبت کے پہاڑی علاقوں تک وہاں کے کسان اس دریا کی عملی طور پر ’’پوجا‘‘ کرتے ہیں اور شاعر اس دریا کی قصیدہ خوانی میں مصروف ہیں۔ اتنی عبادت اور قصیدہ خوانی کسی دیوتا یا سیاستدان کی بھی نہیں کی جاتی جتنی دریائے سندھ کی‘ کی جاتی ہے حالانکہ یہی دریا کئی علاقوں میں اب صرف رسمی طور پر موجود ہے۔ قدیم سنسکرت کی اشلوکوں اور انگریز راج کے دوران اس دریا کی جو حیثیت تھی اس میں اب کمی ضرور ہوئی ہے‘ انگریز کی حکمرانی کے دوران اپنے مقاصد اور سفر کی سہولتیں حاصل کرنے کے لئے دریائے سندھ کو Protective Bundsکے درمیان قید کردیا گیا اور پاکستان میں دریائے سندھ پر ڈیم بنائے گئے‘ اس کے اثرات ان علاقوں کے باشندوں پر بھی پڑے ہیں‘ اب اس دریا کے کناروں پر انسانیت کے بجائے اکثر وحشت کا راج ہے‘ آج جب میں دریائے سندھ کے بارے میں سوچتی ہوں تو مجھے سنسکرت کے وہ اشلوک یاد آجاتے ہیں جو کسی زمانے میں پجاریوں کی زبان پر ہوتے تھے‘ ایسے ہی گیت یونانی سپاہیوں اور صوفی درویشوں کی زبان پر بھی رہے۔ صدیوں کا سفر کرتے یہ الفاظ جب ہم تک پہنچتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ سب کچھ ختم ہو گیا ہے؟

تازہ ترین