• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل (Transparency International دنیا کا ایک معتبر ادارہ ہے جس کی شاخیں دنیا کے90کے قریب ملکوں میں قائم ہیں۔یہ ادارہ دنیا بھر میں کرپشن کے خلاف اور شفافیت کے حق میں جنگ لڑرہا ہے۔ یہی ادارہ ہر سال دنیا بھرکے ممالک کی ایک فہرست جاری کرتا ہے جس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ کس ملک میں کرپشن کس حد تک پائی جاتی ہے۔اس فہرست کے مطابق ابھی تک پاکستان کا شمار دنیا کے بدعنوان ترین ملکوں میں ہی ہوتا ہے۔
پنجاب حکومت اسی ادارے کا کندھا استعمال کرتے ہوئے اپنے لئے ایمانداری کا سرٹیفکیٹ فوری طور پر حاصل کرنا چاہ رہی ہے تاکہ اس سرٹیفکیٹ کو بنیاد بنا کر دنیا بھر میں اپنی ایمانداری کا ڈھنڈورہ پیٹا جاسکے اور آئندہ عام انتخابات جیتے جاسکیں۔
رکئے ،ٹھہرئیے !ہم کسی پر الزام لگارہے ہیں نہ کسی کی دیانت پر شک کررہے ہیں!
بات حقائق اور دلائل کی بنیاد پر ہوگی!
پنجاب حکومت نے گزشتہ دنوں ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل سے ایک میمورنڈم آف انڈرسٹینڈنگ یاMOUپر دستخط کئے ہیں۔ (یاد رہے کہ ایم او یو کوئی معاہدہ نہیں ہوتا) اس دستاویز کے مطابق ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل حکومت پنجاب کی طرف سے 36ارب روپے سے مکمل کی گئی تین سکیمیں لیپ ٹاپ سکیم(جس کے تحت طالبعلموں میں کمپیوٹر مفت تقسیم کئے گئے) اجالا سکیم(جس کے تحت طالبعلموں میں
مفتSolarپینل بانٹے گئے تاکہ وہ بجلی نہ ہونے کی صورت میں ا پنےLaptopکی بیٹری چارج کرسکیں) اور لاہور میں میٹرو بس پراجیکٹ کا جائزہ لے کر حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے سے پہلے یہ رپورٹ پیش کرے گی کہ
(i)کیا ان سکیموں میں PPRAرولز کی خلاف ورزی تو نہیں گئی؟
(ii)کیا ان رولز پر عملدرآمد کا Process شفاف تھا؟
(iii)اسی تقریب میں وزیر اعلیٰ پنجاب نے یہ ارشاد فرمایا کہ پنجاب حکومت نے خود کو”احتساب“ کے لئے پیش کردیا ہے اگر کسی منصوبے میں کوئی بے ضابطگی پائی گئی تو اس کے ذمہ دار کو معاف نہیں کیا جائے گا!
یہاں تک تو معاملہ درست ہے مگر بنیادی سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل احتساب کا ادارہ ہے؟ کیا یہ کوئی Audit Agencyہے یا چارٹرڈ اکاﺅنٹنٹس کی فرم؟
ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل دنیا بھر کے ممالک میں بدعنوانی کے حوالے سے ہر سال جو فہرست جاری کرتی ہے وہ کچھIndicatorsیا عشاریوں کی بنیاد پر بنائی جاتی ہے اور اسےPerceptionانڈیکس کہا جاتا ہے۔ یہ ایک غیر نفع بخش ادارہ ہے جو پاکستان میں ایک این جی او کے طور پر رجسٹرڈ ہے خود ادارے کے پاس ہرگز ہر گز یہ صلاحیت نہیں کہ وہ کسی سرکاری منصوبے کاMicro Auditکرسکے اور اس Auditکی بنیاد پر کرپشن کی نشاندہی کرسکے۔ پھر یہ کہا گیا کہ یہ ادارہ صرف PPRAرولز کے تحت منصوبوں کا جائزہ لے گا اور منصوبوں میں شفافیت کا اندازہ لگائے گا۔
یہ PPRAرولز کیا ہیں؟
22صفحات پر مشتمل یہ دستاویزات پنجاب پروکیورمنٹ ریگولیٹری ایجنسی کے رولز پر مشتمل ایک دستاویز ہے جس میں سرکاری محکموں میں خریداری کی منصوبہ بندی ،خریداری کے لئے متوجہ کرنے کے لئے تشہیری طریقہ کار، ٹھیکیداروں کی پری کوالیفکیشن اہلیت اور نااہلیت ،خریداری کے طریقہ کار، ٹینڈر کھولنے ،مسترد کرنے اور منظور کرنے کے ضابطے ،ٹھیکہ ایوارڈ کرنے کا طریقہ، دستاویزات کو محفوظ کرنے ،تنازعات کو نمٹنانے کے طریقے بنائے گئے ہیں۔
ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل انہی رولز کی بنیاد پر شفافیت کا اندازہ لگاسکتی ہے!!
اگر سرکاری فائلوں میں کاغذات پورے ہیں(کوئی احمق ہی فائل کا پیٹ خالی چھوڑے گا) تو ٹرانسپرینسی انٹرنیشل ہر صورت میں ا ن منصوبوں کو شفافیت کا سرٹیفکیٹ دینے پر مجبور ہوگی کیونکہ رولز پر عملدرآمد پورا ہوگا اور پنجاب حکومت اس سرٹیفکیٹ کو اپنی ایمانداری کی سند قرار دے کر آئندہ الیکشن میں بھرپور ڈھول پیٹے گی!
پھر یہ رپورٹ پنجاب حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے سے پہلے مکمل کی جائے گی!
ذرا اندازہ لگائیے آج3مارچ ہے۔16مارچ کو اسمبلیوں کی مدت پوری ہوجائے گی اور حکومتیں تحلیل ہوجائیں گی۔2ہفتے سے بھی کم مدت میں36ارب کے منصوبوں کو شفافیت قرار دینا، خود کتنا”شفاف “ عمل ہوگا؟
حضور.... سرکار دربار میں فائلوں میں کاغذات ہمیشہ پورے ہوتے ہیں لیکن رقم کسی اور کی جیب میں جاچکی ہوتی ہے۔پنجاب حکومت اگر واقعی ایمانداری کا سرٹیفکیٹ لینے میں سنجیدہ ہے تو کسی چارٹرڈ اکاﺅنٹینسی کی فرم یا آڈٹ ایجنسی سے ان منصوبوں کاPerformance Auditکرائے۔ یہ آڈٹ کرنا ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کے بس کی بات نہیںPerformance Auditمیں تین چیزوں کا جائزہ لیا جاتا ہے جنہیں3Eکہا جاتا ہے۔
Economy (i)
Efectivity (ii)
Efficiency (iii)
اس میں خریداری کے واﺅچر چیک کئے جاتے ہیں۔ دیکھا جاتا ہے کہ خریدی گئی یا تعمیر کی گئی چیزیں واقعی موجود ہیں ۔یہ چیزیں کس ریٹ پر خریدی گئیں، ان کا استعمال دیکھا جاتا ہے۔
آپ اپنی مرضی کا سرٹیفکیٹ لے کر ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کو متنازعہ بنائیں گے اور خود کو بھی۔ ہمت ہے تو36 ارب کے ان منصوبوں کاPeformance auditکرائیں پھر پتہ چلے گا کہ کمپیوٹر کی قیمت صحیح تھی یا نہیں؟ سولر پینل کتنے میں خریدا گیا ؟ کتنے میں خریدا جاسکتا تھا؟میٹر و بس کے کتنے ٹھیکے شفاف تھے ؟
آپ ہمارے ساتھ اس بادشاہ کا سلوک نہ کریں جس نے خوش ہو کر اپنے ایک درباری سے کہا
”میں اپنی داڑھی کو پکڑ کر کھینچوں گا جتنے بال میرے ہاتھ میں آئیں گے اتنی اشرفیاں تجھے انعام میں دوں گا“
درباری خوش ہوگیا، بادشاہ نے اپنی داڑھی کھینچی تو ایک بال ہاتھ میں آیا، درباری کو ایک اشرفی مل گئی، اس پر درباری نے غصے سے کہا
”بادشاہ سلامت یہ ناانصافی ہے“
بادشاہ بولا”کیسی ناانصافی؟“
درباری نے کہا،”حضور داڑھی بھی آپ کی، ہاتھ بھی آپ کا....انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ داڑھی آپ کی اور ہاتھ میرا ہوناچاہئے“۔
تو حضور.... ایمانداری کے سرٹیفکیٹ نہ لیجئے، ایمانداری ثابت کیجئے!
تازہ ترین