• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ 2019کا آخری اتوار ہے۔ بیٹوں، بیٹیوں، پوتوں، پوتیوں، نواسوں، نواسیوں کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا دن۔

چھ دن کاروباری، تجارتی، ملازمتی مصروفیتوں میں گھرے ایک دن صرف اور صرف اپنے، اہلِ خانہ اور پاکستان کے مستقبل کے لئے۔ چھ دن دفتر میں، دوستوں کی محفلوں میں ملک میں انتشار کی باتیں کرتے گزارتے ہیں۔ کوئی عمران خان کا حامی ہے، کوئی میاں نواز شریف کا، کوئی بلاول بھٹو زرداری کا، کوئی مولانا فضل الرحمن کا۔ جو ان میں سے کسی ایک کا دلدادہ ہے وہ دوسروں کا اتنا ہی مخالف ہے۔ بحث مباحثہ شروع ہو جائے تو کوئی اپنے موقف سے ہٹنے کو تیار نہیں ہوتا۔ چاہے دلائل کی روشنی میں اس کا اس کی پارٹی کا بیانیہ غلط ثابت ہو گیا ہو۔

میں تو پہلے بھی کئی بار عرض کر چکا ہوں کہ اگر آپ کو عمران خان اچھے نہیں لگتے تو اتوار کے روز اپنی اولادوں میں دیکھیں کہ ان میں سے کوئی عمران خان کی ڈگر پر تو نہیں چل رہا۔ اس طرح اگر کسی کو میاں نواز شریف پسند نہیں ہیں تو انہیں بھی اپنے گھر میں جھانکنا چاہئے کہ ان میں سے کوئی میاں نواز شریف کے نقشِ قدم پر تو گامزن نہیں ہے۔ میاں صاحب کی جو عادتیں آپ کو بری لگتی ہیں ان میں سے کوئی عادت آپ کے گھر میں تو پرورش نہیں پارہی۔ اسی طرح آصف زرداری کے اقدامات آپ کے نزدیک ملک کے مفاد میں نہیں ہیں تو اپنے خاندان میں دیکھئے کوئی آصف زرداری کی طرح کے خیالات تو نہیں رکھتا۔ عمران خان، میاں نواز شریف، آصف زرداری کی اصلاح آپ کے بس میں نہیں ہے لیکن آپ اپنے بچوں کی تو اصلاح کر سکتے ہیں۔ ماں باپ مل کر کوشش کریں کہ حکمرانوں، سیاستدانوں اور افسروں کے جو اطوار اور انداز ملک کے مفاد میں نہیں سمجھتے، اپنے بچوں کو ان سے دور رکھیں۔

اس وقت ملک میں ذہنی طور پر بہت انتشار ہے۔ حقیقی معنوں میں قیادت کا فقدان ہے۔ ادارے آپس میں لڑ رہے ہیں۔ ہر چند کہ ملک میں آئین کی حکمرانی ہے، منتخب حکومت ہے، پارلیمنٹ ہے، صوبائی اسمبلیاں ہیں، عدلیہ آزاد ہے، میڈیا آزاد ہے مگر ملک میں استحکام نہیں۔ اس وقت حکمراں وہ نسل ہے جسے ماں باپ وقت نہیں دے سکے۔ انہوں نے بحران میں آنکھ کھولی، تصادم کی آغوش میں پلے، عدم تحفظ کے احساس نے انہیں کسی نہ کسی کھونٹے سے نتھی ہونے پر مجبور کیا۔ اس بےسمتی، لاپروائی میں پرورش پانے والے اب کلیدی عہدوں پر بیٹھے ہیں۔ کوئی بھی ایسی سیاسی، غیرسیاسی، مذہبی، روحانی شخصیت نہیں ہے جس کی بات سب مانتے ہوں۔ اس لئے محاذ آرائی اور زیادہ بڑھتی جارہی ہے۔ ہم اس وقت اگر کچھ نہیں کر سکتے مگر مستقبل کے لئے تو کچھ کر سکتے ہیں۔ ہمارے اور آپ کے گھروں میں پرورش پانے والی نسل کو ہی کچھ برسوں میں ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے۔ آئیے ان کو صحیح سمت دکھائیں انہیں مافیائوں کا مقابلہ کرنے کی تربیت دیں۔

دو روز بعد 2020کا سورج طلوع ہونے والا ہے۔ یہ انتہائی اہم سال ہے۔ اس میں ایک دن زیادہ ملنے والا ہے۔ بہت سے عالمی بقراطوں نے کئی سال پہلے کہا تھا کہ 2020میں انہیں پاکستان نظر نہیں آرہا ہے۔ اللہ کے فضل سے پاکستان قائم و دائم ہے۔ آگے بڑھ رہا ہے۔ نئی نئی شاہراہیں تعمیر ہورہی ہیں۔ نئے نئے پیشے ظہور میں آرہے ہیں۔ پاکستان کے نوجوان صلاحیتوں اور اہلیت میں کسی سے کم نہیں ہیں۔

اب تو بڑے دنوں کی چھٹیاں بھی ہیں۔ آپ بچوں کو یقیناً وقت دے رہے ہوں گے۔ بعض والدین تو بچوں کو لے کر سمندر پار گئے ہوئے ہیں۔ بعض کسی دوسرے شہر۔ خوشی ہے کہ یہ آٹھ دس دن والدین اور بچے ایک دوسرے کے قریب رہیں گے۔ والدین نے دیکھ لیا ہوگا کہ بچوں کا اسکرین ٹائم کتنا ہے۔ کتنی دیر موبائل سے چپکے رہتے ہیں۔ دیکھیں ویسے اسے برا سمجھا جاتا ہے لیکن دوسرا پہلو بھی ہے کہ بچے ہم سے زیادہ باخبر رہتے ہیں۔ پھر یہ بھی کہ ٹیکنالوجی کی وجہ سے نئی نسل کی فہم کی رفتار ہم سے زیادہ تیز ہے۔ اس حقیقت کو بھی ان سے بات کرتے وقت پیش نظر رکھیں۔

ہم نے گھر داری کے ساتھ محلّے داری کی بھی فرمائش کی تھی۔ ہماری یہ عرض بھی بہت پسند کی گئی۔ کچھ احباب نے کہا کہ وہ پہلے سے ہی ہر اتوار کو ملتے ہیں۔ آپس میں طے کرلیتے ہیں کہ کس کے گھر شام کو چائے ہوگی۔ گلی محلّے کی ضرورتوں پر بھی تفصیل سے بات ہو جاتی ہے اور دو شہروں سے یہ اطلاع دی گئی کہ ہم یہ سلسلہ اس اتوار سے شروع کررہے ہیں۔ امام مسجد کو بھی یہ رائے اچھی لگی ہے۔

مسجد تاریخ اسلام کے ابتدائی ادوار میں دینی، سماجی، سیاسی مرکز رہی ہے۔ پہلے مملکت کے سربراہ مسجد میں بیٹھ کر ہی فیصلے کرتے تھے۔ احکام صادر کرتے تھے۔ یہ مسجدیں ایوان صدر بھی ہوتی تھی۔ وزیراعظم ہائوس بھی۔ جی ایچ کیو بھی اور بعض مواقع پر سپریم کورٹ بھی۔ ہمیں اب بھی مسجد کی مرکزیت کو بحال کرنا چاہئے۔مسجد کا مقصد صرف پانچ وقت کی نمازوں کی ادائیگی نہیں بلکہ امّت کی فلاح ہے دن میں پانچ وقت ملنا آج کے مصروف دور میں بہت اہم امر ہے۔ ایک دوسرے کا دُکھ درد جان سکتے ہیں۔ مسائل کے فوری حل کے لئے مشاورت ہوسکتی ہے۔ ہم نے مسجدوں کو بھی متنازع بنادیا ہے۔ یہ فلاں فرقے کی ہے۔ یہ فلاں کی۔ مسجد اللہ کا گھر ہے۔ اللہ سب کا ہے سب اس کے نائب ہیں۔

آئیے 2020کے لئے کچھ لائحہ عمل طے کریں۔ اسے محبت اور مکالمے کا سال بنائیں۔ بلوچستان، سندھ، پنجاب، کے پی، گلگت بلتستان، آزاد جموں و کشمیر کے باہمی رابطوں میں تیزی کا۔ انسانوں کے درمیان قربتوں کا سال۔ 2020نظر کا مکمل معیار ہے۔ 2020میں پاکستان میں بھی سیاسی بصارت اور سماجی بصیرت اس معیار کی ہونی چاہئے۔

تازہ ترین