• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سنئے منصور آفاق کا کالم ’ نیب زدگان کے لئے سیف سٹی ‘ ان ہی کی زبانی


مہاراجہ رنجیت سنگھ ٹھیک کہا کرتا تھا کہ پنجاب پر حکمرانی آسان نہیں۔ عثمان بزدار وزیراعلیٰ بنے تو معلوم ہوا کہ سرخ کارپٹ کے تلے مسائل کے انبار ہیں۔ ماضی میں جنہیں صرف چھپایا گیا ہے۔ حل تلاش کرنے کی کوشش کی تو رکاوٹوں کے پہاڑ کھڑے کئے گئے اور یہ تاثر دیا گیا کہ وزیراعلیٰ اہلیت ہی نہیں رکھتے۔

اِس پروپیگنڈے سے تنگ آکر عمران خان نے چیف سیکریٹری اور آئی جی کو سیاسی اثر رسوخ سے آزاد کردیا تو ایک نیا موقف سامنے آیا کہ بیوروکریسی نے اختیارات پر قبضہ کرکے وزیراعلیٰ کو او ایس ڈی بنا دیا ہے۔ یہی بتانے کے لئے تیس کے قریب پی ٹی آئی کے ایم پی ایز نے وزیراعظم سے ملاقات کے لئے وقت مانگ لیا ہے۔ 

بےشک عمران خان پنجاب کو بہتر بنانے کے لئےپُرعزم ہیں۔ پنجاب پولیس اور بیوروکریسی میں اصلاحات ضروری سمجھتے ہیں۔ ایک سال میں پانچ آئی جیز بدل دینا کوئی مذاق نہیں۔ 

مجھے لگتا ہے کہ اس وقت بیوروکریسی اور پولیس عثمان بزدار کی قیادت میں درست سمت کا تعین کر چکی ہے۔ گزشتہ دنوں لاہور میں قائم پنجاب سیف سٹی اتھارٹی کے مرکزی دفتر جانے کا اتفاق ہوا۔ دل خوش ہوا۔ لاہور کو سیف سٹی پروجیکٹ کی مانیٹرنگ وال کے ذریعے سے مُٹھی میں بند کر دیا گیا ہے۔ 

اس منفرد اور بےمثال منصوبے کو جس پولیس آفیسر کا Brain Childکہا جاتا ہے۔ اسے اکبر ناصر خان کہتے ہیں۔ انہوں نے بتایاکہ 17ارب روپئے کا یہ پروجیکٹ ٹیم ورک کا ایک مثالی نمونہ ہے۔ آٹھ ہزار سے زائد کیمرے اس وقت لاہور اور ملحقہ شہر قصور میں لگائے گئے ہیں۔ 

ادارہ آٹھ سو مردو خواتین پر مشتمل ہے۔ جس میں زیادہ تر آئی ٹی گریجویٹ نوجوان ہیں۔ اس ادارے کا ڈیٹا مینجمنٹ نادرا سے بھی زیادہ ہے۔ اور اب ای ٹریفک چالان (ETC)کی وجہ سے محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کو بھی اپنا ڈیٹا بیس اَپ ڈیٹ اور بہتر بنانے میں آسانی ہو رہی ہے۔ 

ای چالان ٹریفک کو کنٹرول کرنے اور شاہراؤں کا نظام بہتر بنانے میں بہت زیادہ مدد گار ثابت ہو رہا ہے۔ گزشتہ پانچ سے چھ ماہ کے دوران لاہور میں شہریوں کی جانب سے 125ملین روپئے کی رقم قومی خزانے میں بطور چالان جمع کروائی گئی۔ حادثات میں نمایاں کمی، فیول کی بچت اور ٹریفک کی روانی اور بہاؤ برقرار رکھنے کے فوائد اس کے سَوا ہیں۔

لاہور کے سیف سٹی پروجیکٹ میں شہریوں کو ایمرجنسی ریسپانس فراہم کرنے کے لئے ایمرجنسی کال (15اور 1122) بھی وصول کی جاتی ہیں۔ پبلک سیفٹی اپلیکیشن بھی متعارف کرائی گئی ہے۔ 

اکبر ناصر خان کو میں اُس وقت سے جانتا ہوں جب انہیں تین چار ماہ کے لئے میرے اور عمران خان کے ضلع کا ڈی پی او لگایا گیا تھا۔ اس وقت میانوالی دہشت گرودں کے گھیرے میں تھا۔ انہوں نے آٹھ پولیس اہلکاروں کو شہید کردیا تھا۔ 

وہ آئے اور انہوں نے میانوالی کو دہشت گردوں سے اس طرح صاف کردیا کہ پھر کسی کو یاد بھی نہیں رہا کہ میانوالی میں دہشت گردی ہوا کرتی تھی۔ انہی کی زبانی معلوم ہوا کہ میانوالی میں ایک سیف سٹی پروجیکٹ شروع کیا گیا ہے۔ 

اس کی تصدیق میانوالی کے دوستوں نےکی ۔اب تک لگائے گئے 64 کیمروں نے میانوالی کو شہر کی حد تک ایک مانیٹرنگ وال پر منتقل کردیا گیا ہے ۔ ڈی پی او حسن اسد علوی کو چھ ماہ قبل ایک انتخاب کے طور پر میانوالی بھیجا گیا تھا ۔سود خوروں اور منشیات فروشوں کے خلاف ان کی کارکردگی خاصی حوصلہ افزاء ہے مگر احتساب کا سلسلہ میانوالی میں خاموش ہے ۔

وہاں کے سرمایہ کاروں نے پچھلے دس بارہ بے تحاشا لوٹ مار کی مگر ان پر کسی نے ہاتھ نہیں ڈالا اور افسوس ناک خبر یہ ہے کہ حکومت نےنیب کاترمیمی آرڈینس وفاقی کابینہ کو بھیجا۔میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ حکومت کے ہاتھوں یہ ایک بڑا بلنڈرہوا ہے۔اس وقت تک صرف احتساب ہی ایک ایسا عمل تھا جس کی وجہ سے قوم اس حکومت کا ساتھ دے رہی تھی ۔

اس آرڈینیس سے تو یوں لگ رہا ہے کہ احتساب کے معاملے میں بھی یو ٹرن لیا جارہا ہے ۔اس آرڈنیس کے تحت قومی احتساب بیورو محکمانہ نقائص پر سرکاری ملازمین کے خلاف کارروائی نہیں کر سکے گا۔ سرکاری ملازم کی جائیداد کو عدالتی حکم نامے کے بغیر منجمد نہیں کیا جا سکے گا، صرف سرکاری ملازم کے اثاثوں میں بے جا اضافے پر اختیارات کے ناجائز استعمال کی کارروائی ہو سکے گی۔

نیب تین ماہ میں تحقیقات مکمل نہ کر سکا تو گرفتار سرکاری ملازم ضمانت کا حقدار ہو گا، نیب50کروڑ سے زائد کی کرپشن اور اسکینڈل پر کارروائی کر سکے گا۔کاروباری لوگوں کے خلاف کارروائی نیب کے دائرہ کارسے باہر ہوگی۔

سوری دوستو! اکبر ناصرکی باتیں کرتا کرتا شہزاد سلیم کی طرف جا نکلا تھا۔وہ آج اس لئے بھی بہت یا د آئے کہ کل بے نظیر بھٹو شہید کایوم شہادت تھا ۔انہوں نے ہی ڈیرہ اسماعیل خان سے محترمہ بے نظیر بھٹوکے قتل میں موث مبینہ افراد کو گرفتار کیا تھا ۔

افغانستان کے بالگرام ایئربیس پر ہونے والے حملے کی ایف آئی آر میانوالی کے ایک پولیس اسٹیشن پر درج کی تھی ۔اس سے پہلے ڈیرہ اسماعیل خان اور چترال کے اضلاع میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی ان کی کوششیں قابل قدر ہیں ۔راجپوت ہونے کے ناطے وہ آج بھی حق بات کہنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ 

کسی راجپوت میں کلاسیکل مزاج کی موجودگی بھی حیرتوں کے سامان میں سے ایک ہوتی ہے۔ پولیس کی وردی میں موجودیہ راجپوت میری طرح کاایک شاعر ہے۔

شدتِ شوق نظارے سے سوا ہے ناصر

گردِ مہتاب نے مہتاب چھُپا رکھا ہے

تازہ ترین