• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزری 20ویں صدی، اپنے اختتامی دو عشروں میں دنیا بھر میں کمیونیکیشن سینچری (ابلاغی صدی) کہلائی، ویسے تو ابلاغ انسانی زندگی کا لازمہ ہے اور اس کے بغیر انسانی زندگی کی روانی قائم رہ ہی نہیں سکتی، لیکن گزشتہ صدی میں کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کے فیلڈ میں معجزات جیسی جو انقلابی ایجادات ہوئیں اس سے عالمی سطح کے ابلاغ کی کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کو بامِ عروج پر پہنچا دیا، جام جہاں نما (قدیم ایرانی بادشاہ کے پاس ایسا پیالہ ہونے کی متھ) کو متھ نہ رہنے دیا بلکہ حقیقت بنا دیا آج دنیا بھر کے واقعات وقوع پذیر ہوتے ہی ٹی وی اور موبلائل کی اسکرین پر عملاً دیکھے جا سکتے ہیں۔ پھر گھر گھر اِن الیکٹرانک آلات کا مزدوروں اور غرباء کے ہاتھ میں آ جانے نے گزری (20ویں) صدی کو پوری دنیا سے ابلاغی صدی کے طور پر تسلیم کرا دیا۔ گویا اللہ تعالیٰ نے شرفِ انسانی کو عقلِ سلیم کے بعد جو دوسرا بڑا شرفِ ’’ابلاغ‘‘ عطا کیا اُسے انسان نے اپنی عقلِ سلیم، تجربات، علم اور ایجادات سے اتنا آگے بڑھایا کہ وہ بجا طور پر نائب الا اللہ کہلانے کا مستحق ہے۔

21ویں صدی جو شروع ہوئی تو عالمی انسانی معاشرے کے تغیرات پر گہری نظر رکھنے والے جملہ علوم کے ماہرین نے نئی رواں صدی اپنے اختتام پر کیا کہلائے گی؟ کس طور تسلیم کی جائے گی جیسے سوالات کا جواب اپنی زندگیوں کے بعد، رواں صدی کے آخری ربعہ یا اختتامی عشروں کے ماہرین علوم پر نہیں چھوڑا کہ وہ ہی اس کا فیصلہ کریں گے بلکہ اُن کے تجسس کا عالم اور درجہ یہاں تک ہے کہ اُنہوں نے اپنی دسترس میں علوم اور اُس کے اطلاق کے انتہائی محتاط اندازوں سے یہ نتیجہ اخذ کرنے کی ممکنہ انسانی کوشش کی ہے کہ آغاز صدی (رواں) پر ہی آنے والی اور موجود نسل پر یہ آشکار کر دیا جائے کہ یہ (21ویں) صدی کیا کہلائے گی؟ ان کی علمی کاوشوں کا جواب آیا ہے، ’’واٹر سینچری‘‘ اس کا وضاحتی مطلب ہے کہ جو قوم واٹر مینجمنٹ کی صلاحیت میں سب سے آگے ہوگی اور جس کے پاس سب سے زیادہ آبی وسائل ہوں گے وہ ہی قوم سب سے زیادہ خوشحال، مستحکم، پُرامن و پُرفضا ہوگی جس کے اثرات اس کی قومی معیشت اور مطلوب تہذیبی ارتقا پر براہ راست ہوں گے۔ علوم اور علمی اندازوں پر مبنی پیشگوئی کو مزید یوں بھی سمجھا جائے کہ ’’پانی‘‘ رواں صدی میں ایک ایسا اہم اور حساس انسانی زندگی کا ایجنڈا بنتا جائے گا جس کے نتیجے میں پانی قومی سلامتی، سیاست، معیشت، جنگوں اور دفاعی استحکام تک کا موضوع بنتا جائے گا اور عالمی معاشرت سیاست اور بین الاقوامیت پر اتنا حاوی ہوگا کہ بالآخر یہ رواں صدی جس میں ہم تو (اکثریت) اس کے اختتام پر نہ ہوں گے اپنے آخری عشرے میں حتمی طور پر ’’واٹر سینچری‘‘ تسلیم کرلی جائے گی۔

اگرچہ رواں صدی کے واٹر سینچری ہونے پر مکمل ’’آئینِ نو‘‘ (کالم) اور اس کا ذکر کئی حوالوں سے زیر نظر کالم میں ہو چکا ہے اور تادم ہوتا رہےگا لیکن آج کا موضوع گزری صدی اور ابلاغیات کے حوالے سے اس کے دورس نتائج کے حوالے سے ہے۔ گزری صدی ’’ابلاغی صدی‘‘ ضرور مانی گئی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ جاری صدی میں ابلاغیات کی اہمیت ’’واٹر‘‘ کے مقابل کم ہو گئی ہے بلکہ یہ ان دورس نتائج کے طور پر اور بڑھ گئی جو اب نکل چکے ہیں اور نکل رہے ہیں یہاں تک کہ وسیع تر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی جگہ ابلاغ اور ابلاغِ عام کی اعلیٰ ترین صلاحیت کمیونیکیشن سائنس پر عبور، مختلف النوع قومی ابلاغی دھاروں کو ان کے تابع کرنا اور سب سے بڑھ کر ہر شعبہ زندگی میں کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کا استعمال ہی ہمارے ان شعبوں میں مقررہ ترقیاتی اہداف کے حصوں کا ہی ضامن نہیں ہوگا بلکہ درست اہداف مقرر کرنے میں بھی سائنٹیفک حد تک معاون ہوگا۔

سو، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گزشتہ صدی کے آغاز تا اختتام کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کی فیلڈ میں معجزہ نما جو ایجادات ہوتی رہیں، آج کی دنیا کے سامنے جب اس کے بیش بہا دور رس نتائج سامنے نکل آئے ہیں تو ہم بحیثیت قوم اور فرد اس کے کتنے بڑے اور کیسےبینی فشری بن رہے ہیں؟۔ کیا ہم مطلوب درجے پر اس کے علم و استعمال سے آراستہ ہیں؟ خوش قسمتی سے اپنے تمام تر بحرانوں اور حکومتوں کی بیڈ گورننس کے باوجود کافی حد تک ہیں۔ کم از کم اس حد تو ہیں کہ ہم اپنی پولیٹیکل وِل اور قومی انفرادی تعلیم و شعور سے موجودہ صلاحیت کو منظم کرکے اس میں توسیع بھی لا سکتے ہیں اور ہر شعبے کے لئے مطلوب اہداف حاصل کرسکتے ہیں۔ تو کیا کر رہے ہیں؟ بالکل نہیں۔ کیوں نہیں کر رہے؟ ہمارے پاس کمیونیکیشن کا جتنا نالج ہے جتنی مشاورت کی سطح کی علمیت بھی حاصل ہے، جتنے منیجر موجود ہیں، جتنی واک فورس موجود ہے، اس کے مطابق ہم بالکل بھی اس دستیابی کے بینی فشری نہیں ہیں، کیونکہ ہم ایک تو یہ نہیں جانتے کہ اسے ہم نے کہاں کہاں کتنا اور کیسے استعمال کرنا ہے؟ کیوں نہیں جانتے، یوں کہ ہماری گورننس میں انتظامی علوم (گورننس اور ایڈمنسٹریٹو سائنس) کے مطابق پالیسی سازی کا شدید فقدان ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں ہر ماڈل اور شکل کی حکومت میں بیڈ گورننس ہونا کامن ہو چکا ہے۔ پالیسی سازی کیوں نہیں کر پاتے، اِس میں نااہلی، حکمرانوں کی عدم وقفیت اور بدعنوانی اور بدنیتی ہر دو کا دخل ہے۔آج پاکستان کے لئے آئیڈیل صورتحال پیدا ہو چکی ہے کہ ہم سلامتی و دفاع خصوصاً اور قومی معیشت اور سماجی ترقی کے اہداف سائٹیفک تعین اور حصول کی پوزیشن میں تو ہیں لیکن اس مطلوب پراسیس کو شروع کرنے کی صلاحیت سے عاری ہیں۔ ہمارے پاس کوئی قومی ابلاغی (نیشنل کمیونیکیشن) پالیسی نہیں ہے، جس میں ترجیحی بنیاد پر ہماری قومی ابلاغی ضروریات کی نشاندہی کی گئی ہو۔ ان کے لئے کون سی ابلاغی حکمت ہائے عملی اختیار کی جائیں۔ کمیونیکیشن پلاننگ کیسے ہو؟ کون کرے؟ لے دے کر ہم نے فقط میڈیا اور اس کے گھسے پٹے انداز پیشہ اور ایجنڈا کو قومی ابلاغی دھارا سمجھ لیا ہے۔

ہمیں جدید ترین ہتھیاروں کی تیاری اور خریداری پر اربوں کھربوں روپے بہاکر سلامتی و دفاعی ضرورتوں کو یقینی بنانے کے لئے خطرات کو کم تر کرنے اور دفاعی صلاحت کو مسلسل کمیونیکیشن ٹیکنالوجی اور سائنس کے اطلاق سے بڑھانے کا کوئی شعور نہیں ماسوائے اس کے کہ ہم بہت بنیادی نوعیت کے محدود ترین فوائد اپنے ایسے دستیاب آئی ٹی پوٹینشل سے حاصل کر رہے ہیں جبکہ اس سے خود کو ہمارا دشمنِ اول ثابت کرنے والے بھارت کے خلاف زبردست اور کامیاب ترین کمیونیکیشن وار سے ناقابلِ یقین نتائج حاصل کرنے کی پوزیشن میں آگئے ہیں جس کے لئے موثر پیغام سازی کا بھرپور مواد خود بھارت کی بنیاد پرست جنونی حکومت نے اپنے ہٹلرانہ اقدامات تیار کردیا ہے اور مسلسل کر رہی ہے۔ رہا معاملہ ملک میں غربت، جہالت، بیماری، سماجی بے بسی، تھانہ کچہری کلچر کے خلاف کامیاب جنگ بذریعہ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کا اس کے لئے پہلا مورچہ ’’ڈیجیٹل پاکستان پروگرام‘‘ کے آغاز سے عمران حکومت نے لگایا تو ہے، دیکھئے ابھی اور بھی اس سمت میں بہت کچھ ہونے والا ہے۔

تازہ ترین