• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمِ اسلام کی پہلی خاتون منتخب وزیراعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کو 12برس ہو گئے ہیں لیکن غم ابھی تک تازہ ہے۔ اِن 12برسوں میں اس سوال کا تسلی بخش اور دو ٹوک جواب نہیں مل سکا ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو کے قاتل کون ہیں اور اُنہیں کیا سزا ملی ہے لیکن 27دسمبر 2007کے سانحہ کے پاکستان پر ہونیوالے اثرات کا آج 12برس بعد بہتر طور پر اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے سانحہ کے پاکستان پر مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لینے کے لئے ہمیں پاکستان میں عالمی طاقتوں کی مداخلت کے تناظر میں اپنی تاریخ پر ایک طائرانہ نظر ڈالنا ہوگی۔ 

بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کو زندگی نے اتنی مہلت ہی نہیں دی کہ وہ دو عالمی جنگوں کی راکھ سے جنم لینے والے سرد جنگ کے عہد میں پاکستان کی خارجی اور داخلی پالیسی کو اس طرح تشکیل دے سکتے کہ پاکستان دو بلاکس میں تقسیم دنیا میں اپنی مرضی سے کسی ایک بلاک کا حصہ بن سکتا یا کم از کم اپنی غیر جانبدار پوزیشن کا دفاع کر سکتا۔ 

پاکستان کی نئی ہیئتِ مقتدرہ اپنے جوہر میں سیاست مخالف تھی۔ قائداعظم کے بعد بھی قد آور اور بڑے وژن والے سیاسی رہنما کو آگے نہیں آنے دیا گیا اور پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کو بھی کمزور کردیا گیا۔ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ہی ہمارا ملک سیاسی طور پر کمزور ہوا اور اُس میں بھی عالمی طاقتوں کا بہت زیادہ کردار رہا۔ 

پاکستان کو امریکی سرمایہ دارانہ بلاک میں دھکیل دیا گیا۔ لیاقت علی خان نے بطور سیاستدان اس گڑھے سے نکلنے کے لئے کچھ کوشش کی تو انہیں بھی شہید کردیا گیا۔ ان کے بعد سیاستدانوں کو احتساب کا نشانہ بنایا گیا اور پاکستان میں ایسے سیاستدانوں کو سیاست سے دور رکھنے کے لئے اقدامات کئے گئے، جو ترقی پسندانہ اور قوم پرستانہ سوچ کے حامی تھے یا پاکستان کی سرمایہ دارانہ بلاک میں شمولیت کے مخالف تھے۔

ترقی پذیر دنیا کے بہت سے ممالک بشمول مسلم ممالک سرد جنگ میں سرمایہ دارانہ بلاک کا حصہ بن گئے تھے اور ان کی داخلی اور خارجی پالیسیوں پر ان کا اپنا اختیار نہ ہونے کے برابر تھا۔ سرمایہ دارانہ بلاک میں شامل ترقی پذیر ملکوں میں ایسی قیادت پیدا ہوئی، جنہوں نے اپنے ملکوں کو اس بلاک سے نکالنے اور غیر جانبدار، سیاسی اور معاشی طور پر خود مختار ملک بنانے کے لئے مزاحمتی سیاست کی۔ 

پاکستان میں بھی اس وقت دیگر ملکوں کی طرح ترقی پسند تحریک بہت مضبوط ہو چکی تھی، جس کی وجہ سے کئی ترقی پذیر ملکوں میں انقلابات رونما ہوئے۔ پاکستان میں انقلاب تو رونما نہ ہوسکا لیکن ذوالفقار علی بھٹو کی شکل میں ایک ایسا لیڈر اور پیپلز پارٹی کی شکل میں ایک سیاسی جماعت ابھر کر سامنے آئی۔ 

بھٹو نے پاکستان کو عالمی شکنجوں سے نکالنے کے لئے غیر وابستہ تحریک، ایشیا اور افریقہ میں علاقائی تنظیموں اور عالم اسلام کو سامراج مخالف سیاست کے رخ پر ڈالنے کی کوشش کی۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ بھٹو اور تیسری دنیا کے دیگر سامراج مخالف اور عوام میں مقبول سیاسی رہنمائوں کا کیا انجام ہوا۔

1979میں بھٹو کی پھانسی کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو نے جب سیاست کا آغاز کیا تو یہ پاکستان بلکہ تیسری دنیا میں سیاست کا انتہائی مشکل دور تھا اور پاکستان کو سیاسی طور پر انتہائی خطرناک بنادیا گیا تھا۔ سوویت یونین کا شیرازہ بکھرا اور سرد جنگ کا بھی خاتمہ ہوا۔ 

دنیا پر امریکی بالادستی کا نیو ورلڈ آرڈر لاگو ہوگیا۔ پاکستان پہلے سے زیادہ امریکہ اور اس کے حواریوں کے ایجنڈے پر چلنے پر مجبور تھا۔ یہ وہ عہد ہے جس میں محترمہ نے سیاست کی۔ 

ایک غیر ملکی جریدے نے 80کی دہائی میں رپورٹ دی کہ مسلم دنیا میں صرف ملائیشیا کے مہاتیر محمد، ایران کے محمد فاطمی اور پاکستان کی بینظیر بھٹو ایسے رہنما ہیں جو امریکہ کے عالمی ایجنڈے کے لئے چیلنج ہیں۔ 

اس خطرناک ترین دور میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے پاکستان میں دو آمروں کا مقابلہ کیا۔ پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کےلئے جدوجہد کی اور قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں اور پاکستان کو غیر جانبدار اور خود مختار ملک بنانے کے لئے ایسے اقدامات کئے جن سے تصادم بھی نہ ہو اور پاکستان مزید تباہی سے بچ سکے۔

 محترمہ بے نظیر بھٹو نے قد آور عالمی لیڈر کی حیثیت سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو اپنے لیکچرز، بیانات اور تحریروں سے یہ بتانے کی کوشش کی کہ تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ غلط ہے۔ 

مسلم دنیا میں دہشت گردی کی کوئی جڑیں اور اسباب نہیں ہیں۔ دہشت گرد امریکہ کے نہیں بلکہ خود اپنے ان مسلمان بھائیوں کے دشمن ہیں، جو اسلامی معاشرے میں رواداری اور روشن خیالی کے حامی ہیں۔ ان حالات میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے اگرچہ سامراجی دنیا کو للکارنے سے گریز کیا لیکن انہوں نے اپنی سیاست کو اس نہج پر رکھا کہ دنیا کے حالات بدلنے پر پیپلز پارٹی اپنا حقیقی ترقی پسندانہ، سامراج مخالف اور عوام دوست جوہر دوبارہ اجاگر کرسکے اور پاکستان پھر سے ترقی پذیر اور عالمی دنیا کی قیادت کرے لیکن ایسی بے نظیر بھٹو بھی عالمی طاقتوں کو گوارا نہیں تھیں۔

 انہیں عدالتوں سے سزائے موت تو نہیں ہوئی، انہیں جسمانی طور پر ختم کرنے کے لئے غیر ریاستی عناصر کا کندھا استعمال ہوا۔ آج حالات بدل رہے ہیں۔ سیاست کے لئے خطرات کم ہورہے ہیں۔ 

دنیا میں نئی صف بندیاں ہورہی ہیں۔ مہاتیر محمد اب کھل کر اسلامی دنیا کو امریکہ مخالف فورم پر جمع کررہے ہیں۔ ایران پہلے سے زیادہ کھل کر کردار ادا کررہا ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جکڑ بندیوں والے ترقی پذیر ممالک بشمول پاکستان کے لئے نئے امکانات اور راستے پیدا ہورہے ہیں۔ 

آج اگر محترمہ بے نظیر بھٹو جیسی قد آور سیاسی لیڈر موجود ہوتیں تو پاکستان کوالالمپور کانفرنس میں شریک ہوتا۔ نئی صف بندی میں پاکستان امریکی کیمپ سے نکلنے کے لئے سیاسی طور پر زیادہ مضبوط ہوتا اور اس وقت پاکستان کا جو موجودہ سیاسی نقشہ ہے، وہ بھی نہ ہوتا۔

تازہ ترین