• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کوفے کی سیاست سے ریاست مدینہ تک

کیا اس ملک میں نظامِ خلافت رائج ہے یا کوفے کی سیاست چل رہی ہے جو ہم رائج الوقت جمہوری نظام سے فرار کے درپے ہیں؟ ریاست مدینہ کے لئے خلافت کا نظام لانا ہو گا جو کہ امکان سے باہر ہے، ہر وہ نظام جو قوم کو انصاف دے، اس کی زندگی آسان کرے، کرپشن کا خاتمہ اس طرح کیا جائے کہ وہ ذاتیات سے پاک ہو، ایک دم کسی اچھائی کو رائج کرنے کے بجائے برائی کا خاتمہ بتدریج کیا جائے، اخلاقیات کو اولیت دی جائے، اس کے نتیجے میں معیشت بھی درست سمت میں آگے بڑھے گی، ہمارا معاملات کے حل کا انداز تقریباً نجس ہو چکا ہے، کسی کو جھکا کر بلندی حاصل کرنا قوم کو زوال کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہے۔ اعتبار و اعتماد کی فضاء برقرار رکھنے کے لئے ایک دوسرے کی جانب بڑھنے کی ضرورت ہے۔ کسی منصوبے کا افتتاح اپوزیشن سے بھی کرایا جائے اور اس کے نام کی تختی لگائی جائے تاکہ یہاں سے خواہ مخواہ کی فضاء ختم ہو، وزیراعظم اسمبلی تشریف لائیں تو کم از کم پہلی صف کی طرف ضرور ہاتھ بڑھائیں تاکہ دل ایک دوسرے کے قریب آئیں، کرپشن کے خلاف جو ادارے کام کر رہے ہیں ان کو اس طرح سے مانیٹر کیا جائے کہ کسی کو یہ گمان نہ گزرے کہ حکومت عداوت پر اتر آئی ہے، بلاول زرداری بھٹو نے، اگر غور کریں تو بات صحیح کی ہے کہ کوفہ کی سیاست سے ریاست مدینہ وجود میں نہیں آ سکتی، الزام ثابت ہونے سے پہلے ایذا رسائی کا سلسلہ روکا جائے۔ حیرانی ہے کہ سیاست نہ صرف پیشہ بنا دی گئی بلکہ اسے ذریعہ کمائی بھی بنا دیا گیا، وہ بھی ہم ہی تھے کہ ریاست کا چراغ الگ اور گھر کا چراغ الگ رکھا، اگر ایسا ہو تو پھر گھر کے چراغ سے کبھی گھر کو آگ نہ لگے، گناہ ملک و قوم کو دائو پر لگا کر بہت کر لئے اب اجتماعی توبہ کا وقت آ پہنچا ہے، اب بھی نہ سنبھلے تو دنیا و آخرت ہار بیٹھیں گے۔

٭٭٭٭

وصل کی شب نہ چھیڑ قصۂ درد

جب کسی قوم کو چاروں اطراف سے منتشر کرنے کی کوششیں کی جائیں، اور جب میڈیا غلطیوں کی نشاندہی کرنے لگے مدح سرائی نہ کرے تو سمجھ لیں کہ یہی وہ ستون ہے جس نے چھت کو گرنے سے بچا رکھا ہے، اس ستون میں مافیا تلاش کرنے کی بے سود کوشش نہ کی جائے، کہ آج کا رہبر یہی میڈیا ہے، اس کے لئے اتنی کشائش ضرور پیدا کی جائے کہ اپنے ورکرز کو بروقت مزدوری ادا کر سکے ترقی یافتہ ملکوں میں میڈیا ہی تھنک ٹینک ہوتا ہے اور اس کی بصیرت کی روشنی میں قومی پالیسیاں وضع کی جاتی ہیں، جمہوریت ایک طرز حکومت ہے کہ جس میں اجتماعی سوچ سے کام چلایا جاتا ہے، جمہوریت، پارس ہے اس سے لوہا صفت مسائل رگڑے جائیں تو وہ سونا بن جاتے ہیں، ہماری ترقی بہت قریب ہے بشرطیکہ ہم اس وقت جگت بازی، خار بازی، قلا بازی کے بجائے جم کر پوری سوچ سمجھ سے چلیں مولانا محمد علی جوہرؔ نے کیا خوب اشارہ ہمیں راہ دکھانے کے لئے دیا تھا؎

وصل کی شب نہ چھیڑ قصۂِ درد

وہ کسی اور دن سُنا لینا

آج اگر ہم عہد کر لیں اپنے اجتماعی وجود پر ترس کھائیں تو بکھرے بیر اکٹھا کرنا کچھ مشکل نہیں، اگر ہم نے ماحول ساز گار نہ بنایا تو نیکی کجا گناہ بھی اطمینان سے نہیں کر سکیں گے، یہ ٹھیک ہے کہ؎

بھانویں ہجر تے بھانویں وصال ہووے

وکھو وکھ دوہاں دیا لذتاں نے

لیکن اب وقت وصال ہے، ہجر کے مزے بہت لے لئے سارا جسم نیل نیل ہے مرہم وصل رکھیں سارے زخم بھر جائیں گے، شیخ رشید اگر ایک دو ماہ چپ کا روزہ رکھ لیں اور دیگر وزراء بھی خاموش ہو جائیں اپوزیشن اگر جلی کٹی سنائے تو چپ سادھ لیں عمران خان قبلہ کے بھی کئی مسائل حل ہو جائیں گے اور مزید یہ کہ؎

اچھا ہے ان کے پاس رہے مشیروں کا یہ ہجوم

خود کو کبھی مگر تنہا بھی چھوڑ دیں

٭٭٭٭

یہ دودھ ہے یا پائو ڈر’’جواب چاہئے!‘‘

عدالت عظمیٰ نے قرار دیا تھا کہ پائوڈر کی شکل میں جو کچھ دودھ کا نام دے کر بیچا جا رہا ہے اس پر کمپنی یہ لکھنے کی پابند ہے کہ ’’یہ دودھ نہیں ہے‘‘ مگر ہم نے کسی بھی خشک پائوڈر کے ڈبے پر یہ جملہ لکھا نہیں دیکھا کیا سپریم کورٹ کے اس حکم پر عملدرآمد بھارت نے کرانا ہے؟ یہ اہم معاملہ ہے، یوں ہماری سب سے بڑی عدالت کے احکامات کو ہوا میں نہ اڑایا جائے، بصورت دیگر ذمہ داری حکومت وقت پر عائد ہو گی، تقریباً دنیا بھر میں پائوڈر کو دودھ قرار دے کر نہیں بیچا جاتا بلکہ اس کو بین کر دیا گیا، آرگینک دودھ ہی اصل دودھ ہے مائع شکل میں جو ڈبہ بند دودھ بیچا جا رہا ہے اس کا بھی جائزہ لیا جائے کہ وہ کہاں تک دودھ ہے، اسی طرح تیل میں جو کچھ بھی تل کر فروخت ہو رہا ہے وہ تیل دراصل کیا ہے فوڈ ڈیپارٹمنٹ کو فعال کیا جائے اور اس پر بھی ایک دیانتدار مانیٹر مقرر کیا جائے، اور معاف کرنا یہ جو کھابے ہوتے ہیں اکثر خانہ خرابے ہوتے ہیں کبھی ان کی بھی خبر لی جائے، فوڈ ڈیپارٹمنٹ ہفتہ وار یا پندرہ روزہ بنیادوں پر اپنا ایک شیڈول بنائے، ہمارے ہاں چیک اینڈ بیلنس میں تسلسل نہیں یہی وجہ ہے کہ ایک چھاپے سے نوٹ چھپ جاتے ہیں اصلاح نہیں ہو پاتی، مزید یہ کہ رٹ آف گورنمنٹ کو آواز دو وہ کہاں ہے، پولیس کو ہم نے ٹھیک کر کر کے خراب کر دیا، فطرت سے سیکھیں، کہ کارخانہ قدرت چل رہا ہے آواز نہیں آتی، نہ ہی پلوشن، رات دن میں ڈھل جاتی ہے پتہ ہی نہیں چلتا، شام دبے پائوں آتی ہے رات بن جاتی ہے، یہ ہنسی کہ فطرت گونگی ہے بجلی کی کڑک زلزلوں کی گڑگڑاہٹ طوفانوں کا شور بلند آہنگ گویائی ہے مگر کبھی کبھی عبرت کے لئے، حکومت اپنی رٹ کو کب قائم کرے گی۔

٭٭٭٭

کہیں سڑکیں بھی باہر نہ نکل آئیں

....Oسنا ہے کہ آئندہ بجٹ میں ٹیکس اضافہ دل کھول کر کیا جائے گا۔

غریب عوام کچھ اپنا ٹھکانہ کر لیں ورنہ رزقِ شبِ گراں ہوں گے

....Oابرار الحق نے چیئرمین ہلال احمر کا چارج سنبھال لیا۔

ہمیں تو اسی روز معلوم ہو گیا تھا جب چیئرمین صاحب نے ’’چمکیلی آئی جے‘‘ گا کر کوالیفائی کر لیا تھا۔

....O ناہید خان:بلاول، مشرف پر تنقید کے بجائے اپنے والد سے سوال کریں،

کیوں باپ بیٹے کے درمیان خلیج پیدا کر رہے ہیں۔

....Oگیس بحران کہیں دافع عمران نہ ہو جائے۔

مہنگائی کا بھی کچھ مداوا نہ کیا، یہ نہ ہو کہ سڑکیں بھی باہر نکل آئیں۔

تازہ ترین