• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاہور کبھی برصغیر کا سب سے صاف ستھرا اور صحت افزا شہر تھا۔ پہاڑی علاقوں کے بعد شہر لاہور کو صحت کے اعتبار سے بہترین کہا جاتا تھا۔ آپ مغل حکمرانوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، کئی مغل شہزادے اور شہزادیاں ہوا خوری کے لئے لاہور کا رخ کیا کرتے تھے۔ راوی دریا کے درمیان واقع کامران کی بارہ دری میں کئی مغل شہزادوں نے قیام بھی کیا۔

لاہور گزٹیر میں درج ہے کہ راوی دریا میں دس قسم کی مچھلیاں پائی جاتی تھیں۔ کچھوے حتیٰ کہ مگر مچھ اور کئی آبی جانور یہاں ہوتے تھے، لوگ کنوئوں سے پانی پیتے تھے، شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جس میں چھوٹے کنویں نہ ہوں۔ ہم نے اپنے بچپن میں ماضی کے معروف فلم اسٹار ایم اسماعیل جو کہ بھاٹی گیٹ میں چومالہ محلے میں رہتے تھے، یہ وہی علاقہ ہے جہاں برصغیر کے معروف گلوکار محمد رفیع کا مکان آج بھی موجود ہے۔ اس گلی کے اکثر گھروں میں کنویں تھے اور ہم نے ان کنوئوں کا شفاف اور ٹھنڈا پانی بےشمار مرتبہ پیا تھا۔ ہمارا تعلق بھی بازار حکیماں سے ہے اور ہمارے نانا میاں عید محمد کے مکان میں شاعر مشرق علامہ اقبالؒ ایک مدت رہے، اس مکان سے انہوں نے شاعری کا آغاز کیا تھا جس پر آج بھی شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کے نام کی تختی لگی ہوئی ہے۔ وہ لاہور شہر جس کی ہر سڑک ٹھنڈی سڑک تھی۔ جنگ اخبار کے پاس سندر داس روڈ پر درختوں کی اتنی تعداد تھی کہ ایچیسن کالج کے بانس اور میو گارڈن کے درخت آپس میں ملے ہوئے تھے۔ ڈیوس روڈ پر ناخنوں کی طرز کے لال پھول لگے ہوئے تھے۔ یہ سڑک ان پھولوں کے سڑک پر گرنے سے لال ہو جاتی تھی۔ یہ درخت 1990تک رہے اس کے بعد ان درختوں کو اس دور کی حکومت کے متعلقہ ظالم اہلکاروں نے کاٹ کر بیچ دیا، پتا نہیں کس کس کو حصہ ملا۔ وہ خوبصورت ڈیوس روڈ جس پر سوائے ایک ہوٹل کے باقی تمام بڑی بڑی خوبصورت کوٹھیاں ہوتی تھیں وہاں پر درختوں کی بھرمار اور شام کو پشاور ہائی کورٹ کے پہلے چیف جسٹس مرحوم بشیر الدین تھری پیس سوٹ پہن کر ہاتھ میں پالش کی ہوئی اسٹک لے کر واک کیا کرتے تھے۔ کبھی کبھار ہم بھی ان کے ساتھ واک کیا کرتے تھے۔ ڈیوس روڈ پر کبھی ایک شیش محل بھی تھا جو بینظیر بھٹو خریدنا چاہتی تھیں۔ اب اس سڑک پر تین قدیم کوٹھیاں رہ گئی ہیں۔ ایک پاکستان کی پہلی خاتون پائلٹ (جو کہ پی آئی اے میں ہیں) رابعہ کی ہے۔ دوسری مسلم لیگ ہائوس اور تیسری قدیم کوٹھی ہے، لاہور کا کون سا علاقہ تھا جہاں درخت اور سبزہ نہیں تھا۔ مثلاً بھاٹی گیٹ سے لے کر شیرانوالہ گیٹ تک ہر دروازے کے باہر گھاس، میدان اور درخت تھے۔ کبھی ان درختوں کی چھائوں میں لوگ گرمیوں کی دوپہریں گزارا کرتے تھے۔

پچھلے تیس برس میں ہم نے اس شہر کا حلیہ ہی بگاڑ دیا ہے۔ اس لاہور کے ارد گرد دو سو سے زیادہ چھوٹے بڑے دیہات تھےجو ہائوسنگ اسکیموں کی نذر ہوگئے۔ جن کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں درختوں کا صفایا کر دیا گیا، وہ درخت جو ہمیں آکسیجن مہیا کرتے تھے۔ لاہور کی نہر کی سڑک کو وسیع کرنے کے چکر میں سینکڑوں درخت کاٹ دیئے گئے، رش پھر بھی کم نہ ہوا۔ آج سے دس برس قبل کسی نے اسموگ نام کی کسی چیز کا نام نہیں سنا تھا۔ دھند ضرور سب نے دیکھی ہے، دھند آج بھی ہوتی ہے مگر اسموگ نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ اس نے لوگوں کو بے شمار بیماریوں میں مبتلا کردیا ہے۔ ن لیگ کی حکومت آئی اس نے بڑے دعوے کئے کہ پورے پنجاب کو کلین اینڈ گرین بنا دیں گے مگر کچھ نہ ہوا۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ نے بالکل درست کہا کہ بےشمار لوگ آئے اور انہوں نے پنجاب اور خصوصاً لاہور کو سرسبز بنانے کے بڑے دعوے کئے مگر عملاً کچھ نہ ہوا لیکن ہم عوام کے سامنے یہ وعدہ کرتے ہیں کہ اس شہر کو سرسبز بنائیں گے۔ اللہ کرے ان کا یہ عہد پورا ہو۔ اگر حکومت کلین اینڈ گرین پاکستان بنانا چاہتی ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ شہر شہر گائوں گائوں بننے والی ہائوسنگ اسکیموں پر پابندی لگائے ورنہ پورے ملک سے درخت ختم ہو جائیں گے اور زرعی رقبہ بھی ختم ہو جائے گا۔ اس وقت حکومت کے سامنے موسمیاتی تبدیلیاں اور آلودگی پر قابو پانا بہت بڑا چیلنج ہے۔ حکومت درخت ضرور لگائے مگر پھل دار درخت لگائے تاکہ لوگوں کو بھی ان کا فائدہ ہو۔ ایک زمانہ تھا لاہور میں ہر طرح کے پھل کے درخت لگے ہوئے تھے مگر آہستہ آہستہ وہ تاریخی باغ زمانے کی نذر ہوگئے اور پھل دار درخت بھی ختم ہوگئے۔ مثلاً کبھی بادامی باغ اور شاہدرہ کے درمیان والے باغ میں مولسری ، آم اور ناشپاتی کے درخت بھی ہوتے تھے۔ جامن اور شہتوت کے درخت کسی زمانے میں بے شمار ہو تے تھے اب صرف باغ جناح میں رہ گئے ہیں۔ جسے لارنس گارڈن بھی کہتے ہیں۔ اس شہر میں کئی باغ تھے۔ مثلاً باغ گل بیگم، سرکلر باغ، باغ مہابت خان، گلابی باغ تھے جو اب ختم ہوگئے ہیں، حکومت نئے باغات بنائے لیکن اس کے ساتھ ضروری ہے کہ قدیم، تاریخی باغات کو بھی ازسر نو تعمیر کرائےاور ان تاریخی باغات پر جن لوگوں نے تجاوزات تعمیر کرلی ہیں وہ قبضہ مافیا سے چھڑائے اور اس شہر کے تاریخی حسن کو بحال کرے۔ہر ہائوسنگ اسکیم والوں کو پابند کرے کہ وہ کم از کم سو ایکڑ اراضی زراعت اور پھل دار درختوں کے لئے مختص کرے۔ کسی زمانے میں لاہور کی سڑکوں پر شام کو کارپوریشن کی بیل گاڑیاں پانی کا چھڑکائو کیا کرتی تھیں۔ خصوصاً ریٹی گن روڈاور ٹیپ روڈ پر یہ بیل گاڑیاں پانی کا چھرکائو کیا کرتی تھیں جس سے پورا علاقہ مہک اٹھتا تھا۔ آج لاہور بھی کراچی کی طرح کچرا کنڈی بنتا جا رہا ہے اگر حکومت نے شہر کی صفائی کی طرف توجہ نہ دی تو وہ دن دور نہیں جب یہ پورا شہر کچرستان بن جائے گا۔

تازہ ترین