• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنی والدہ محترمہ بینظیر بھٹو کی جائے شہادت لیاقت باغ راولپنڈی میں 27دسمبر کو بڑی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے۔ وہاں موجود لوگوں کے مطابق یہ انتہائی کامیاب جلسہ تھا، جس میں پاکستان کے ہر علاقے سے لوگوں نے بھرپور شرکت کی۔ 

محترمہ بینظیر بھٹو کی 12ویں برسی کے موقع پر منعقدہ یہ جلسۂ عام پاکستان کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ آج پاکستان کے حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں، ان میں سیاسی قوتوں بالخصوص پاکستان پیپلز پارٹی کے کردار کی ضرورت پہلے سے بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ 

جلسہ ملک کے انتہائی نازک مرحلے پر ایک ایسا ایونٹ ہے جو سیاسی مایوسی سے نکلنے کا سبب بن سکتا ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال یہ تھا کہ 4اپریل اور 27دسمبر کے جلسے گڑھی خدا بخش میں ہونا چاہئیں۔ 

جگہ تبدیل کرنے سے ان سیاسی اجتماعات کی روایت کو برقرار رکھنا مشکل ہوجائے گا لیکن 27دسمبر کا لیاقت باغ راولپنڈی کا جلسہ ’’قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم۔۔۔ اور نکلیں گے عشاق کے قافلے‘‘ کی حقیقی توضیح ثابت ہوا۔ 

پیپلز پارٹی کو اس ٹیمپو (TEMPO)یعنی رفتار اور انداز کو قائم رکھنا ہے کیونکہ پاکستان کی سیاست میں پیپلز پارٹی کے کردار کی بہت زیادہ گنجائش بن گئی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کو بہت سے چیلنجز سے نبرد آزما ہو کر اپنی پارٹی کا مؤثر کردار متعین کرنا ہے۔ 

بلاول بھٹو زرداری جس سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں، یہ نہ صرف ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو جیسی عظیم سیاسی شخصیات کا بڑا سیاسی ورثہ ہے بلکہ پاکستان کا بھی قیمتی اثاثہ ہے۔ 

پیپلز پارٹی ملک کی وہ واحد سیاسی جماعت ہے، جو علاقائی اور بین الاقوامی حالات کو مدِنظر رکھ کر سیاست کرتی ہے اور وہ ہمیشہ پاکستان کو ایک ایسا ملک بنانے کے لئےکوشاں رہتی ہے، جو معاشی اور سیاسی طور پر خود مختار ہو، جس کا اپنے وسائل پر اختیار ہو، جو اپنی مرضی سے فیصلے کر سکے اور جو سامراج مخالف اور غیر وابستہ فورمز پر اپنا قائدانہ کردار ادا کرسکے۔ 

بلاول بھٹو زرداری کو اپنے ملک کی سیاست میں اپنا اور اپنی پارٹی کا مؤثر سیاسی کردار بنانے کے لئے پیپلز پارٹی کے ماضی کا سائنسی اور تاریخی مادیت کے اصولوں پر تجزیہ کرنا ہوگااور مستقبل کی راہیں نکالنا ہوں گی۔

ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو امریکی کیمپ سے نکالنے اور اسے غیر جانبدار اور خود مختار ملک بنانے کے لئے اپنی سیاست کا آغاز کیا تھا۔ پہلے اُنہوں نے ایوب خان کی کابینہ میں رہ کر اپنے اہداف حاصل کرنے کی کوشش کی۔ جب عالمی طاقتوں نے ایوب خان کو احساس دلایا تو ایوب خان نے بھٹو کو اپنی کابینہ سے برطرف کردیا۔ 

اس وقت تک پاکستان دوسری راہ پر گامزن ہو چکا تھا اور عالمی برادری میں پہلی مرتبہ لوگوں کو یہ محسوس ہوا کہ افریقہ اور ایشیا، لاطینی امریکہ سمیت تیسری دنیا کے ممالک کی قیادت کر سکتا ہے۔ 

ایوب خان کی کابینہ سے بھٹو کی برطرفی کے خلاف برطانیہ کے سیاسی فلاسفر برٹرینڈرسل نے عالمی رہنماؤں، قومی آزادی اور جمہوری تحریکوں کی قیادت کو احتجاجی خطوط لکھے اور یہ باور کرایا کہ سامراجی طاقتیں قوم پرست اور ترقی پسند رہنمائوں کو نشانہ بنا رہی ہیں۔ 

بھٹو نے ایوب خان کی کابینہ سے نکل کر عوامی سیاست کی اور پاکستان کو سامراجی کیمپ سے نکالنے کے لئے قومی اور عوامی جمہوری تحریک کے لئے راہ ہموار کی۔ پہلی بار مزدوروں، کسانوں، طلبہ، وکلا، صحافیوں سمیت پورے ملک کے ہر علاقے، ہر طبقے اور گروہ کو اس تحریک میں شامل کیا گیا۔ 

عالمی اور علاقائی سطح پر جمہوری اور قومی آزادی کی تحریکوں نے پاکستان میں تحریک کو تقویت دی۔ بھٹو نے تیسری دنیا کے سامراج مخالف، وطن پرست، غیر وابستہ عالمی اور علاقائی فورمز، تنظیموں اور اتحادوں کو پاکستان کے ساتھ جوڑا۔ 

پہلی دفعہ اسلامی کانفرنس کی تنظیم (او آئی سی) کو مسلم دنیا کی خود مختاری کے لئے ایک راستے پر ڈالا اور اسلامی سربراہ کانفرنسوں کے ذریعے اسے مضبوط اور متحرک بنایا۔ پھر بھٹو کو راستے سے ہٹادیا گیا۔ 

محترمہ بینظیر بھٹو نے انتہائی مشکل دور میں بھٹو کی سیاست اور وژن کو آگے بڑھایا۔ یہ دور اس لئے مشکل تھا کہ انقلابات، آزادی اور جمہوری تحریکوں کا دور ختم ہوگیا تھا۔ 1979میں انقلاب ایران دنیا کا آخری انقلاب تھا۔ ترقی پسند اور وطن پرست قوتوں کے اتحاد، تنظیمیں اور تحریکیں غیر مؤثر ہوگئی تھیں۔ 

سرد جنگ کا عہد بھی ختم ہوا۔ دنیا کے ہر ملک کے عوام دوست اور ترقی پسند سیاسی قوتیں تنہا ہوگئیں اور سیاست کرنا انتہائی خطرناک کھیل بن گیا۔ 1979میں افغانستان میں امریکہ اورسوویت یونین کی جنگ اور بعد ازاں 2001میں نائن الیون کے واقعہ کے بعد پاکستان امریکی کیمپ میں مکمل طور پر دوبارہ جکڑا گیا اور صرف فرنٹ لائن اسٹیٹ بن کر رہ گیا۔ 

اس عرصے میں بھی محترمہ بینظیر بھٹو نے نہ صرف جمہوری تحریکوں کی قیادت کی بلکہ امریکہ کی بالادستی والی یونی پولر ورلڈ میں عالمی طاقتوں کے کھیل کو بے نقاب کیا اور نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام کو اس صورتحال سے نکالنے کے لئے بھٹو کی طرح عالمی لیڈر کے طور پر کام کیا۔ 

انہوں نے اپنی سیاست میں پہلی دفعہ یہ بیانیہ دیا کہ لیفٹ کی سیاست صرف سوشلزم اور کمیونزم کی سیاست نہیں ہوتی بلکہ اسٹیٹس کو اور ہر قسم کے استحصال کے خلاف سیاست ہوتی ہے۔ 

انہوں نے یہ بتایا کہ رائٹ کی سیاست اسٹیٹس کو کی سیاست ہوتی ہے، چاہے اسٹیٹس کو کا حامی اپنے آپ کو کتنا بڑا لیفٹسٹ کیوں نہ کہتا ہو۔ محترمہ بینظیر بھٹو کو عالمی اسٹیبلشمنٹ نے برداشت نہ کیا اور انہیں بھی شہید کرادیا گیا۔ کوالالمپور کانفرنس میں عدم شرکت نے بہت کچھ واضح کردیا ہے، جو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ 

پیپلز پارٹی پر اب بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ملک کو اسی راہ پر گامزن کرے، جس راہ پر بھٹو اور بینظیر نے اسے ڈالا تھا۔ بلاول بھٹو زرداری کا بیانیہ درست ہے لیکن پارٹی کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین