• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارتی پارلیمنٹ میں مسلم مخالف شہریت کا قانون پاس ہونے کے بعد سب سے پہلے مظاہرے شمال مشرقی ریاست آسام میں شروع ہوئے جہاں حکومت پہلے ہی لگ بھگ دس لاکھ مسلمانوں اور اتنی ہی تعداد کے قریب ہندوؤں کو غیر ملکی قرار دے چکی تھی۔

مسلمانوں کے برعکس باقی تمام مذہبی گروہوں کو شہریت واپس دلانے کی یقین دہانی کرادی گئی مگر پھر بھی مظاہرے پھوٹ پڑے- اسکے جواب میں حکومت نے پہلے ردعمل کے طور پر لوگوں پر گولیاں برسائیں جس سے کئی افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔

طاقت کے بےتحاشہ اور اندھا دھند استعمال کا اس کے علاوہ اور کوئی جواز سمجھ میں نہیں آتا کہ اس سے لوگوں کو انتہائی خوفزدہ کرنا مقصود تھا تاکہ ملک میں کہیں اور کوئی بھی مظاہرے کی ہمّت نہ کر سکے-

مسلمانوں کی سیاسی اور مذہبی لیڈرشپ کے اخلاقی اور علمی انحطاط کی وجہ سے گزشتہ تین دہائیوں سے وہ آہستہ آہستہ غیر اہم اور غیر فعال کر دیئے گئے ہیں۔

اتنے وسیع و عریض بھارت میں لے دے کے اسد الدین اویسی اور انکی آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین ہی اب پارلیمنٹ اور پارلیمان سے باہر مسلمانوں کے جذبات اور احساسات کی ترجمانی کرتی ہے گو کہ یہ زبانی جمع خرچ کے علاوہ اور کسی کھاتے میں نہیں آتا۔ 

545ممبران والی ملکی پارلیمان میں اویسی کی جماعت کے صرف دو ارکان ہیں جبکہ کل مسلم ممبران کی تعداد 27 ہے۔

حکمران جماعت بی جے پی نے پہلے ہی قتل اور غارتگری یا دھونس اور دباؤ کے ذریعے مسلمانوں کو عملا پیچھے ہٹنے اور غیر متحرک ہونے پر مجبور کردیا ہے۔ 

اس کے علاوہ مسلمانوں میں اقلیتی گروپوں اور کئی مسلم علماء کو لالچ دے کر انہیں اپنی حمایت اور سواداعظم کی مخالفت میں تیار کر لیا ہے۔

ایسے حالات میں ان میں کسی بھی قسم کی مزاحمتی طاقت کا فقدان ہے اور ان سے کسی بھی قسم کی بامقصد جدوجہد کی توقع رکھنا عبث ہے-

حکمران ہندو جماعت بھی یہ ہی سمجھتی تھی کہ اچانک جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبا جن میں کافی تعداد غیر مسلموں کی بھی تھی نے احتجاج کردیا۔

پرامن احتجاج کے جواب میں وفاقی وزیر داخلہ امیت شاہ کے زیر انتظام دہلی کی پولیس نے طلبا کو مسلمان سمجھ کر ان پر حملہ کردیا جس سے سینکڑوں طلباء زخمی ہوئے۔

اتنا ہی نہیں بلکہ جامعہ کی لائبریری میں گھس کر بلا امتیاز طلباء و طالبات کی پٹائی کردی اور ٹیئر گیس کی شیلنگ کی گئی۔ زخمیوں میں مسلمان طلبہ کے علاوہ غیر مسلم خواتین اور حضرات کی بھی کافی تعداد شامل تھی۔ اس بھیانک جبر و تشدد کے بعد تو گویا مودی حکومت کیخلاف ملک میں جگہ جگہ سے لوگوں کا سیلاب امڈ آیا ہے۔

اب صورتحال یہ ہے کہ بھارت کے دارلحکومت نئی دہلی سمیت چنائی سے لے کر ممبئی اور بنگلورو سے کولکتہ تک ملک کے بڑے بڑے شہروں میں لاکھوں افراد سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ 

مظاہروں میں لوگوں کی اس قدر شرکت اور ملک گیر سطح پراس طرح انکا رونما ہونا لگ بھگ گزشتہ نصف صدی میں اس طرح کا پہلا واقعہ ہے جس میں ہندو، مسلمان اور دیگر اقلیتوں کے لوگ شریک ہوئے ہیں۔

اگرچہ ان مظاہروں میں سرکاری جبر اور زیادتی کا نشانہ بننے والے اکثر لوگ مسلمان ہیں اور مسلمان بستیاں ہیں مگر کچھ دلت بھی سرکاری تشدد کا نشانہ بنے ہیں۔ 

مگر ہندوؤں اور دیگر اقلیتی گروپوں جیسے دلتوں اور سکھوں کی طرف سے مسلمانوں کو ملنے والی سپورٹ نے حکمراں جماعت کے ہندتوا منصوبے کی چولیں ہلاکر رکھ دی ہیں، اور تو اور جمعے کو آر ایس ایس کے ہیڈ کواٹر ناگپور میں ہزاروں افراد نے بھی احتجاجی جلوس نکالا جس سے حالات کی تبدیلی کا تھوڑا بہت اشارہ مل سکتا ہے۔

عوامی بغاوت کے نتیجے میں سرکار نے جبر و تشدد کے علاوہ جگہ جگہ موبائل فون اور انٹرنیٹ پر بھی پابندیاں عائد کردی ہیں جس سے کئی طرف سے دعوے کئےجانے لگے ہیں کہ وزیراعظم نریندرا مودی اب ہندوستان کو کشمیر بنا رہے ہیں۔

اس قسم کے دعوے اس وجہ سے صحیح نہیں کہ کشمیری مسلسل سات دہائیوں سے زیر عتاب ہیں جن میں پچھلی تین دہائیاں بےپناہ قتل و غارت گری سے عبارت ہیں۔

یہ سرکاری تشدد کانگریس کے ایماء اور زیر ہدایت بھی اسی طرح سے جاری تھا جس طرح آج شدومد اور بغیر کسی توقف کے- البتہ یہ ضرور ہے کہ بھارت بھر میں ہونے والے عوامی مظاہروں کو کشمیر میں ہونیوالے ’’آزادی آزادی‘‘ کے نعروں سے کافی تحریک ملی ہے۔

کشمیر کی آزادی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو نہ ہو بھارت میں ہندتوا انتہا پسندی سے آزادی ممکن ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔

تازہ ترین