• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پچھلے دنوں کراچی گیا تھا وہاں روز ہی دن بھر ٹی وی پر وقتاً فوقتاً خبرےں آرہی تھیں کہ فلاں جگہ موٹر سائیکل سواروں نے گولیاں مار کر کسی کو قتل کردیا، کہیں اےک سے زیادہ افراد قتل ہوئے۔ نہاےت ہی قابل مذمت اور افسوسناک بات ےہ سامنے آئی کہ قاتل ڈھونڈ ڈھونڈ کر علماءکو قتل کررہے ہےں۔ کئی علماءاور مفتی صاحبان شہید کردیئے گئے اور کوئی ملزم گرفتار نہیں ہوا۔ اےک واقعہ تو ٹی وی پر بار بار دکھاےا گیا کہ کس طرح تین دہشت گردوں نے اےک وےن کو مجبور کرکے فٹ پاتھ کی طرف جانے دیا کیونکہ انہوں نے موٹر سائیکل بیچ سڑک پر کھڑی کردی تھی جب علماءکو لئے وےن وہاں سے گزری تو دو افراد نے ان پر گولیاں برسائیں اور پھر اےک نوجوان ساتھ ساتھ دوڑتا رہا اور کار کے اندر موجود علماءپر گولیاں برساتا رہا، ان کو شہید کیا اور دوڑ کر موٹر سائیکل پر بےٹھے دو افراد کے پیچھے بےٹھا اور ےہ جا وہ جا۔ نہاےت ہی قابل شرمناک بات ےہ تھی کہ وہاں لاتعداد گاڑیاں گزر رہی تھیں کسی نے موٹر سائیکل کے پیچھے کار دوڑا کر اس کو ٹکر نہیں ماری کہ ان کو گراکر گرفتار کرا دےتا۔ جس قوم مےں اےسا کردار پےدا ہو جائے تو پھر وہاں ےقینا تباہی کی آمد لازمی ہے۔ پچھلے دنوں بلوچستان اور خےبر پختونخوا مےں جو دہشت گردی کے واقعات ہوئے ہےں اور بے گناہ لوگوں کو بے دردی سے ہلاک کیا گیا ہے اس نے مجھے فرمان اِلٰہی ےاد دلا دیا ۔ مےں نے کبھی مساجد مےں محترم امام صاحبان کو اس موضوع پر حاضرین کی توجہ دلاتے اور انتباہ کرتے نہیں دےکھا۔ سورة النِّسا، آےت 93 مےں اللہ رب العزّت نے بے گناہ مسلمانوں کو ہلاک کرنے والوں کے لئے ےہ پےغام دیا ہے ”اور جو شخص کسی مسلمان کو قصداً (ےعنی بغےر کسی جائز وجہ کے) ہلاک کرے گا تو اس کی سزا دوزخ ہے جس مےں وہ ہمےشہ ہمےشہ جلتا رہے گا اور اللہ تعالیٰ اس پر غضب ناک ہوگا اور اس پر لعنت بھےجے گا اور اےسے شخص کے لئے اس نے نہاےت ہی سخت عذاب تیار کر رکھا ہے“۔
دےکھئے ےہ کس قدر غےرمبہم اور صاف انتباہ ہے اور جو لوگ پھر بھی کسی مسلمان کو قتل کرےں گے اللہ تعالیٰ ان کو جہنم کی آگ مےں ہمےشہ ہمےشہ کے لئے ڈال دے گا جہاں بار بار ان کی کھال تبدیل کی جائے گی کہ وہ ناقابل برداشت درد و تکلیف کا مزہ چکھتے رہےں اور ان کی کوئی توبہ قبول نہیں ہوگی اور نہ ہی ان کی فرےاد سنی جائے گی۔
اللہ تعالیٰ نے تین قسم کے مجرموں کو جہنم مےں ڈالنے کا وعدہ کیا ہے، اےک مشرک (وہ شخص جو اللہ کے ساتھ کسی کو عبادت وغےرہ مےں شامل کرے)، دوم مُرتد (وہ شخص اسلام قبول کرنے کے بعد اس سے منحرف ہوجائے) اور سوم جےسا کہ اوپر بیان کیا ہے وہ مسلمان جو قصداً کسی بے گناہ مسلمان کو قتل کردے۔ آج کل جو قتل و غارت گری مےں لوگ شامل ہےں وہی اسی زمرے مےں آتے ہےں اور اللہ تعالیٰ کے ہاں ان پر بہت ہی سخت اور تکلیف دہ عتاب و عذاب نازل ہوگا۔
پرانی کہاوت ہے کہ ”انسان تاریخ سے سبق نہیں سیکھتا“ ہر دور مےں ہر قوم پر صادق آتی رہی ہے۔ ہم اپنی اسلامی تاریخ دےکھےں تو حضرت عمر ؓ اور حضرت عثمان ؓ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت کے بعد سے ہم اندرونی خلفشار کا شکار ہوگئے، ہزاروں صحابہ کرام شہید ہوگئے اور ےہ سلسلہ آج تک جاری ہے اور ہم نے بھی تاریخ سے کچھ سبق نہیں سیکھا۔ ہمارے علمائ، امام مساجد کبھی ہمارے زوال کی وجوہات و اسباب پر روشنی نہیں ڈالتے۔
ےہ سب کچھ کیا ہے اور کیوں ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ کیا ہمارے تعلیمی ےا تحقیقی اداروں کو اس سنگین مسئلے کی سنگینی کا کوئی ادراک ہے، کیا ہمارے سماجی تحقیق کے اداروں ےا افراد نے ےا رائے عامہ کا جائزہ لے کر نتائج مرتب کرنے والوں نے اس گمبھیر مسئلے پر توجہ کی ہے؟ مےں ےہ پوچھنے کی جسارت کررہا ہوں کہ کیا پاکستان کی ماضی ےا حال کی کسی حکومت نے کبھی اس وقت ملک کی سب سے بڑی لعنت ےعنی فرقہ واریت کے مسئلے کا کوئی مستقل، معقول، دےرپا حل تلاش کرنے کی کوشش کی ہے؟ کوئی ٹاسک فورس کبھی آپ نے بنتے دےکھی ہے ےا سنی ہے جس کا مقصد ہو ”فرقہ واریت کے مسئلے کا ادراک اور اس کا مستقل قابل عمل حل تلاش کرنا“۔ ان تمام سوالات کا جواب آپ کو نفی مےں ہی ملے گا۔ جب تک اےک اور اہم اور بنےادی سوال کا جواب ہم نہیں دےنگے۔ اس سوال پر مےں گزشتہ اےک کالم مےں تفصیل سے بحث کرچکا ہوں وہ سوال ےہ ہے۔
”اگر ےہ ملک ہم نے اسلام کے نام پر بناےا تھا، مسلمانوں کے اجتماعی مفادات کے تحفظ کی خاطر مسلم قومیت کی بنیاد پر ہم نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ریاست حاصل کی تھی اور 23 مارچ 1949ءکو ہماری منتخب پارلےمینٹ نے جمہوری طریقے پر قرارداد مقاصد پاس کی تھی جس مےں ہم نے اس ریاست کے اسلامی ہونے کا اعلان کیا تھا، اللہ تعالیٰ کی حاکمیت ِ اعلیٰ کو تسلیم کرکے اس کے بتائے ہوئے احکام کے مطابق انفرادی و اجتماعی زندگی گزارنے کا عہد تاریخ کو گواہ بنا کر کیا تھا تو پھر ہم نے اس ملک مےں اسلام کی حقیقی تعلیم کے فروغ کے لئے کیا کام کیا؟ مےں ےہ سوال سب سے کررہا ہوں، اپنے آپ سے بھی، عوام سے بھی، اداروں سے بھی، قوم کے لیڈروں سے بھی، دینی و سیاسی رہنماﺅں سے بھی ،جن کے پاس کچھ وسائل ہےں ان سے بھی، جو بے وسیلہ و بے روزگار ہےں ان سے بھی، تعلیمی ماہرین اور منصوبہ ساز، بنیادی تعلیم اور اعلیٰ تعلیم ، سرکاری تعلیم و پرائیوےٹ تعلیم، مذہبی تعلیم اور روحانی تعلیم سب کے ذمہ دار حضرات اور علمبردار شخصیات سب سے ےہی اےک سوال ہے!“۔ کیا ہم نے اپنی قومی اجتماعی اور انفرادی ذمہ داری پورے خلوص، محنت اور نےک نیتی سے انجام دی ہے کہ ہم اس عظیم عطیہ خداوندی (پاکستان) کی حفاظت، استحکام، اتحاد، ےکجہتی، ترقی، خود انحصاری، آزادی، خود مختاری، انفرادیت، شناخت، پہچان، تاریخی شعور، ثقافتی ذوق و احساس، جمالیاتی تسکین، ادبی جدّت، لسانی وحدت، ذہنی ےگانگی و ہم آہنگی، ملّی شعور، قومی ہم آہنگی، اخلاقی اقدار و روحانی معےار، دینی تعلیم و تربیت، عالمی سطح پر اپنا قابل فخر و امتیاز چہرہ اجاگر کرنے کے لئے کیا کوشش کی؟ جواب سننے ےا سنانے کا ےارا نہیں ہے کہ جواب بہت تلخ ہے۔ جس قدر سوچتا ہوں تلخی بڑھتی جاتی ہے مگر:
چمن مےں تلخ نوائی مری گوارا کر
کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کارِ ترےاق
قبل اس کے کہ مےں اپنی معروضات ختم کروں دوبارہ کراچی مےںخون کی ہولی کھےلے جانے والی وارداتوں پر کچھ تبصرہ کروں گا۔ مےں کراچی کا پرانا شہری ہوں وہاں تعلیم حاصل کی ہے اور برلن جانے سے پہلے وہاں تین سال انسپکٹر اوزان و پےمانہ جات کے طور پر کام کیا ہے۔ اب بھی ہر دو، تین ماہ بعد وہاں کا چکر لگاتا ہوں کہ تین ےونیورسٹیوں کے بورڈ آف گورنرز کا ممبر ہوں اور مےری دو بہنےں اور اےک بھائی اور دو مرحوم بھائیوں کی اولادےں وہاں رہائش پذیر ہےں۔ اس وجہ سے مےں کراچی کے حالات سے خاصا واقف ہوں، اس کے علاوہ وہاں کے کئی مشہور صنعت کار اور تعلیم ےافتہ اعلیٰ عہدےداران مےرے دوست ہےں۔ کراچی مےں کبھی کوئی فرقہ واریت نہ تھی۔ ےہ لعنت آہستہ آہستہ معاشی جدوجہد اور ہمارے کم تعلیم ےافتہ اور انتہا پسند دینی لیڈران نے شروع کی، ہر اےک نے اےک فرقہ بناےا، اس کا چوہدری بن بےٹھااور دوسروں پر زہر آلود تنقید کرکرکے عوام کے دلوں مےں زہر بھر دیا۔ اس وقت کراچی مےں لاتعداد فرقے سخت انتہا پسندانہ پالیسی پر عمل پےرا ہےں۔ حکومت امن و امان قائم کرنے مےں قطعی ناکام رہی ہے اور سوائے اس کے کہ حکمرانوں نے نوٹس لے لیا ہے کوئی کارکردگی زمین پر نظر نہیں آرہی۔ کراچی مےں اےم کیو اےم کی اچھی بھلی گرفت ہے اور وہ بآسانی وہاں امن و امان قائم کر سکتے ہےں مگر ان کی مجبوری ےہ ہے کہ وزارت داخلہ اور اس کے نتیجے مےں پولیس اور رےنجرز ان کے ماتحت نہیں ہےں۔ مےں نے انہی کالموں مےں اور انٹرویوز مےں مشورہ دیا تھا کہ سابق وزیر داخلہ عبدالرﺅف صدیقی کو دوبارہ وزیر داخلہ بنا دیا جائے تو وہ چند ہفتوں مےں امن قائم کرسکتے ہےں مگر پی پی پی کی حکومت کو انا ہے اور ضد ہے کہ وہ ےہ محکمہ اپنی ساتھی اےم کیو اےم کو نہیں دےنا چاہتی۔ اسے عوام کے جان و مال کی حفاظت اور امن و امان کی پروا نہیں، شہر تباہ ہوجائے علمائ، عوام قتل ہوتے رہےں مگر ان کے کان پر جوں نہیں رےنگتی۔ فرقہ وارانہ فسادات و قتل و غارت گری کی پشت پناہی کی جارہی ہے۔
اپنی گزارشات اس بات پر ختم کروں گا کہ ےہ ساری فرقہ بازی اےک شےطانی چکر ہے اس کا اسلام سے قطعی کوئی واسطہ نہیں ہے۔ کسی فرقہ کے پاس اس مےں ملوث ہونے کا ہرگز کوئی عذر نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے غےض و غضب کو سب ہی کم و بےش دعوت دے رہے ہےں اور جہنم کی راہ پر چل پڑے ہےں اور جہنم تک سرنگ کھود رہے ہےں اور اپنی عبرت ناک ہلاکت کا راستہ خود ڈھونڈ رہے ہےں اور اس راستے پر اس گدھے کی طرح بھاگ رہے ہےں جس کو جنگل مےں شےر نظر آگیا ہو۔ جب آنکھ کھلے گی عالم آخر مےں حقیقت منکشف ہوگی تو تب پتہ چلے گا کہ خواب تھا جو کچھ دےکھا، جو سنا تھا وہ افسانہ تھا۔
تازہ ترین