• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیب قانون میں عمران خان حکومت نے کچھ ترامیم کیں جس پر میڈیا اور سیاست میں ایسا شور مچا کہ جیسے کوئی بڑا غلط کام ہو گیا ہو۔

یہ ضرور ہے کہ خان صاحب کی اپنی پرانی کہی ہوئی باتیں اُن کے لیے بڑی ہزیمت کا باعث بن رہی ہیں لیکن نیب قانون کو جس حد بھی تبدیل کیا، وہ خوش آئند ہے اور اس پر اگر سیاست کی گئی تو سیاستدان یاد رکھیں اُنہی کو اس قانون اور احتساب کے نام پر وہ سب کچھ آگے بھی بھگتنا پڑے گا جو وہ گزشتہ بیس سال سے بھگت رہے ہیں۔

چند ایک خرابیاں اس قانون سے ضرور دور کر دی گئی ہیں لیکن اب بھی یہ ایک کالا قانون ہی ہے جس کا ناجائز استعمال کرکے سیاستدانوں اور سرکاری افسروں کو آئندہ بھی بلیک میل کیا جا سکتا ہے، اُنہیں بے قصور جیلوں میں ڈال کر سیاست کے رُخ کو طاقتور طبقے اپنی مرضی کے مطابق جس طرف چاہیں گے، موڑتے رہیں گے۔

اچھا ہوتا کہ صدارتی آرڈیننس کے بجائے نیب قانون میں پارلیمنٹ کے ذریعے ترامیم کی جاتیں کیونکہ صدارتی آرڈیننس تو صرف تین ماہ تک نافذ العمل رہے گا اور اگر پارلیمنٹ سے اس کو پاس نہ کروایا گیا تو جو چند تبدیلیاں اس قانون میں کی گئی ہیں، وہ ختم ہو جائیں گی اور قانون پھر اپنی اصل حالت میں واپس آ جائے گا۔

یہ بھی دیکھئے: وزیراعظم کا احتساب سے کسی صورت پیچھے نہ ہٹنے کا عزم


پی پی پی اور نون لیگ نے چارٹر آف ڈیمو کریسی میں وعدہ کیا تھا کہ اس کالے قانون کو ختم کرکے احتساب کا ایک ایسا ادارہ بنائیں گے جو آزاد اور خود مختار ضرور ہو لیکن اُسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہ کیا جا سکے۔

یہ دونوں سیاسی جماعتیں پانچ پانچ سال حکومت میں رہیں لیکن اُنہوں نے احتساب قانون کو بدلا اور نہ ہی نیب کے ادارے میں اصلاحات کیں اور نتیجتاً دونوں سیاسی جماعتیں اسی نیب کے ہاتھوں، اپنے ہی مرضی سے لگائے ہوئے چیئرمین کے ہاتھوں جیلوں، عدالتوں اور جھوٹے سچے مقدمات کا سامنا کر رہی ہیں۔

ایسا نہیں کہ نون لیگ یا پی پی پی میں کسی نے کرپشن نہیں کی اور یہ بھی نہیں کہا جا سکتا تھا کہ تحریک انصاف میں کوئی کرپٹ نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا نیب واقعی کرپشن کے خاتمے کے لیے کام کر رہا ہے یا یہ وہ ادارہ ہے جو سیاسی جوڑ توڑ اور حکومتوں کو بنانے بگاڑنے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔

نیب کی بیس سال کی تاریخ گواہ ہے کہ یہ ایک ایسا ادارہ ہے جس کو بار بار سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا اور اس بے شرمی سے کیا گیا کہ انصاف کے اصولوں کی دھجیاں اڑائی گئیں اور ایسے ایسے لوگوں کو گرفتار کرکے مہینوں اور برسوں تک جیل میں رکھا گیا جن کی ساکھ پر کوئی انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی۔

ماضی میں اگر نیب نے غلط کیا، احتساب کے نام پر پی پی پی یا نون لیگ کے رہنمائوں میں سے یا اُن کی حکومتوں کے دوران اہم عہدوں پر فائز سرکاری افسروں کو ستایا اور جیلوں میں ڈالا جس پر بیشک عمران خان اور تحریک انصاف خوش بھی ہوں تو یہ کہاں کا انصاف ہے کہ یہی سلوک حکومتی جماعت سے تعلق رکھنے والے رہنمائوں سے ہو۔ بغیر ثبوت کے تحریک انصاف کے وزیروں، مشیروں اور عمران خان کے قریبی افسران کو پکڑ کر جیلوں میں ڈال دیا جائے اور پھر بعد میں دیکھا جائے کہ عدالتیں فیصلہ کیا کرتی ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے اگر یہ کہہ بھی دیا کہ اُن کے بزنس مین دوستوں کو بھی نیب نے ستایا تو کیا یہ درست نہیں کہ پاکستان کے ہر بڑے بزنس مین بشمول وہ جو نون لیگ اور پی پی پی کے بھی قریب ہیں، کے خلاف بھی نیب نے فائلیں کھول رکھی تھیں اور اُنہیں ہراساں کیا جاتا تھا، جس سے بزنس کا ماحول ملک میں تباہ ہو چکا تھا۔

یہ بات بھی درست ہے کہ جو بات عمران خان نے اپنے بزنس مین دوستوں کے حوالے سے کی، اگر وہ کوئی اپوزیشن لیڈر کرتا تو تحریک انصاف اُسے اسکینڈلائز کرتی لیکن ضروری نہیں کہ ہر معاملہ میں سیاست ہی کی جاتی رہے۔

میری حکومت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن سے درخواست ہے کہ احتساب اور نیب کے معاملہ کو سیاست کی نذر کرکے ایک ایسے سنہری موقع کو ضائع مت کریں جس کے ذریعے نہ صرف نیب کے کالے قانون کو درست کیا جا سکتا ہے بلکہ ایک ایسا احتسابی نظام بنایا جا سکتا ہے جس کا مقصد کرپشن کا خاتمہ ہو، ناکہ طاقتور طبقوں یا حکمرانوں کی خواہشوں کے مطابق سیاسی مقاصد کے حصول اور سیاسی مخالفین کی کرداد کشی ہو۔

حکومت کو چاہئے کہ نیب آرڈیننس کو فوری طور پر پارلیمنٹ کے سامنے پیش کرکے اپوزیشن کو ساتھ ملا کر احتساب کے نظام کو بہتر کرے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین