• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غربت کے خاتمے کے لیے حکومت بہت زوروشور سے اپنی کارکردگی بیان کرتی ہے ۔ حکمران اورسیاست دان غریبوں کے دکھ کے مداوے کے لیے سرگرداں نظرآتے ہیں لیکن کیا حقیقت میں یہ ایسا ہی چاہتے ہیںیا انہیں غریبوں کو اذیت میں دیکھ کر خوشی محسوس ہوتی ہے؟وہ اذیت جس سے پاکستان کے 60 سے 70 فیصد عوام کا سامنا ہوتا ہے۔جس میں سب سے پہلے گیس کی لوڈشیڈنگ پھر پبلک ٹرانسپورٹ کا نہ ہوناسرفہرست ہیں۔گیس کے نہ ہونے سے چولہے کی بندش اب ڈکھی چھپی بات نہیں۔امیرلوگوں کے لیے تو شایدمسئلہ نہ ہو کہ بازار سے منگوالیتے ہیں لیکن متوسط اور نچلے طبقہ سے تعلق رکھنا والے افراد روز روز بازار کی عیاشی نہیں برداشت کرسکتے۔ایسے میں غربت کے خاتمے کے لیے حکومت کی کاوشیں ایک نعرے کے سوا کچھ بھی نہیں۔اب ذرا کراچی کے حالات پہ غور کیجئےدوکروڑآبادی سے زیادہ والا شہر پبلک ٹرانسپورٹ کی کمیابی کا شکار۔ جہاں پہلے کبھی سرکلر ریلوے چلتی تھی جو سستی اور آسان سواری تھی جسے جان بوجھ کر ٹرانسپورٹ مافیا نے برباد کیااور پھر منی بسزاور کوچز پبلک ٹرانسپورٹ کے طور پر میسر آئیں پھر اس کے بعد سی این جی کا دوردورہ ہوا توتمام کوچز جوڈیزل پہ چلتی تھیں ان کو سی این جی بسز سے بدلنے کی کوشش کی گئی۔ نعرہ یہ تھا کہ ماحولیاتی آلودگی سے شہر کو بچایاجائے اورڈیزل اور پیٹرول کی جگہ سی این جی سے چلنے والی بسز استعمال کی جائیں۔لیکن پھر کیا ہوا کہ وہ سی این جی بسز بھی غائب ہوگئیں۔ ان کی جگہ چنگچی رکشاؤں نے لے لی جو آئے دن حادثات کاشکارہوتے تھے اور کئی نوجوانوں کوابدی نیندسلاگئے اور ہزاروں لوگوں کو معذوری دے گئے۔ جس کے بعد ان کے خلاف ایکشن لیا گیااور سی این جی رکشے متعارف کرائے گئے۔جو اب بطور پبلک ٹرانسپورٹ چلتے ہیں۔اب اس کے علاوہ جو بچی کچی منی بسز رہ گئی تھیں وہ خستہ حالی کاشکار ہوچکی ہیں۔ان پہ چڑھی ہوئی ٹین جگہ جگہ سے کھل چکی ہے جس سے مسافروں کے ہاتھ پیر زخمی ہوجاتے ہیں اور بہت دفعہ تو کپڑے پھنس کے پھٹ جاتے ہیں۔اور یہ معمول کی بات ہے۔اگر کوئی خاندان والا بچے سمیت اس میں سوار ہوجائے تو جگہ کی کمی کی وجہ سے بس سے گرتے گرتے بمشکل بچ پاتا ہے یا پھر بچوں سمیت حادثات کا شکار ہوجاتا ہے۔ ایسی خبریں عموماً اخبارات میں چھپتی ہیںلیکن چٹ پٹی نہ ہونے کی وجہ سے عوام کی توجہ حاصل نہیں کرپاتیں نہ ہی فیس بک پہ یا سوشل میڈیا پہ شیئر کی جاتیں۔کیونکہ سوشل میڈیا پہ عموماً "بااثرشخصیات"ہی کے مسائل بیان کئے جاتے ہیں۔عوام تو عوام ہے اس کا کام تو صرف جی حضوری کرنا ہے۔اور اپنی قسمت پہ ہائے ہائے۔"ہائے سی این جی۔۔۔ہائے سی این جی" دوہفتے سے سی این جی بحران کے باعث " ہر شخص یہی شکوہ کرتانظرآرہا ہے۔ سی این جی بندش کے باعث سڑکوں پہ ٹرانسپورٹ کا غائب ہونا لوگوں کے لیے سردرد بنا ہوا ہے۔بس اسٹاپوںپہ کھڑے بسوں کے منتظر لوگوں کا ایک جم غفیر نظرآتاہے۔ کئی کئی گھنٹے بس اسٹاپ پہ کھڑے رہنے کے بعد جب کوئی ایک بس آتی ہے تو اس میں پیر رکھنے کی جگہ تک نہیں ہوتی ۔بس بری طرح بھری ہوتی ہے جس کی چھت پر بھی بڑی تعداد میں مسافربیٹھے ہوئے ہوتے ہیں حتی کہ بس کی کھڑکیوں اور چھت تک پہ مسافر لٹکے اور بیٹھے ہوتے ہیں۔جس کی وجہ سے بس ایک طرف سے جھک بھی جاتی ہے جس سےکوئی بھی بڑا حادثہ رونما ہوسکتا ہے۔بس کے اندر مسافر ایسے معلوم ہوتے ہیں کہ جیسے کوئی بھیڑبکریاں ہوں(معذرت کے ساتھ بھیڑبکریاں بھی ٹرکوں پہ ایسی سوار نہ ہوتی ہوں گی)سخت سردی کے باعث چھت پر بیٹھے لوگ بھی بیمار ہوجاتے ہیں۔ گنجائش سے زیادہ بھرے لوگوں کی کنڈیکٹر اور دوسرے مسافروں سے لڑائی جھگڑے معمول کی بات ہوچکی ہے۔وہ بھی ایسے وقت میں جب آفس جانے کی جلدی اور واپس گھر پہنچنے کی بے تابی ہوتی ہے۔اس پر بس کنڈیکٹر من ماناضافی کرایہ وصول کرتا ہے جب سوال کیا جاتا ہے کہ اضافی کرایہ کیوں ؟ تو کہتا ہے کہ سی این جی بند ہے گاڑی ڈیزل پہ چل رہی ہے۔ڈیلز مہنگا ہے۔اس پر سونے پہ سہاگاگاڑی ایسے چلتی ہے کہ منٹوں کا سفر گھنٹوں پر محیط ہوجاتاہے جس کے باعث دفاترتاخیرسے پہنچنے والوں کو پریشانی اور اپنے افسران بالا سے سرزنش کاسامنا کرناپڑتا ہے۔سی این جی کی بندش کے باعث رکشہ والوں نے بھی اپنی مرضی سے اضافی کرایہ وصول کرنا شروع کردیا ہے۔کئی جگہ رکشہ، ٹیکسی ، سامان اٹھانے والے کہتے ہیںکہ سی این جی بندش کے باعث ہمارا کام ٹھپ پڑا ہواہے۔ دو وقت کی روٹی کمانا مشکل ہوگیا ہے۔سی این جی بندش کے باعث خصوصی طور خواتین اور بزرگ مسافروں کو بہت ہی پریشانی درپیش آرہی ہے۔منزل مقصود تک پہنچنا تو دور کی بات گھر واپسی کے لیے اس سے زیادہ پریشانی لاحق رہتی ہے۔اس پر اگر کسی رکشہ والے سے 4,5 افراد مل کر منزل مقصود پہنچنے کی بات کریں تو 500, 600 روپے مانگتے ہیں۔ اس مہنگائی کے دورمیں دو وقت کی روٹی کھانا ہی بہت مشکل ہے توروزی روٹی کے لیے نکلنے والے کم آمدنی کے باعث اتنے کرایہ کہاں سے دیںگے؟گیس کی بندش کے باعث مختلف شہروںمیں مظاہرے بھی ہورہے ہیں۔گھروں میں گھنٹوں کی گیس لوڈشیڈنگ ہورہی ہے جس کے باعث لوگ کھانے پینے سے بھی محروم ہیں۔لوگ پرانے زمانے کی طرح لکڑیوں پر کھانے پکانے پر مجبورہیں۔7 دنوں کے بعد جب 8 گھنٹے کے لیے سی این جی اسٹیشن کھلے تو سخت سردی کے باوجود گاڑیوں، رکشوںاور بسوں کی لمبی قطاریں لگ گئی، کہیںکہیں ٹریفک جام بھی ہوا۔ اس کے باوجود کافی تعداد میں لوگ سی این جی سے محروم رہے۔اس پر ہمارے حکمران مسائل کو حل کرنے کے بجائے ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے نظرآرہے ہیں۔ آخر غریبوں کے آنسو کب پونچھے جائیں گےیااسی طرح اذیت میں پڑے رہیں گے۔کیا ان کی زندگی کا انجام یہ ہے بقول فیض جو بگڑے تو ایک دوسرے سے لڑادو۔۔۔ذرا یک روٹی کا ٹکڑا دیکھا دویہ ہر ایک کی ٹھکرائے کھانے والے۔۔۔یہ فاقوں سے اکتاکےمرجانے والے یہ گلیوں کے آوارہ بےکار کتے

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین