• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سال 2019ء کا اختتام صرف ایک سال کا اختتام نہیں بلکہ ایک دہائی کا اختتام ہے۔ ہم اگلی دہائی میں داخل تو ہو رہے ہیں مگر پچھلی دہائی میں جو کچھ ہوا ہے، بالخصوص 2019ء میں جو کچھ ہوا اور ہونا شروع ہوا، اِس كے اثرات ہم اگلے کافی سال تک دیکھتے رہیں گے۔اپنے طرزِ زندگی، سوچ، آزادیٔ خیال، اپنے ماحول، اپنے اقدار اور اس دنیا كے لیے ہم سب کو کچھ اہم فیصلے کرنا پڑیں گے اور کچھ فیصلوں كے خلاف شاید آواز بلند کرنا پڑے۔

ملکی حالات پر تو قریباً سارا سال ہی بات ہوتی رہی، بین الاقوامی سطح پر ہم نے 2019میں کئی سالوں سے ہارتے ہوئے رائٹ ونگ نیشنلزم کا عروج دیکھا ہے، یعنی ایک مخصوص قسم کی قوم پرستی نے عروج پکڑا جس كے نتیجے میں دنیا کو ڈونلڈ ٹرمپ جیسا شخص ملا، جو کھلم کھلا مسلمانوں اور دیگر ممالک كے لوگوں کو برا بھلا کہتا رہا۔ اسی نیشنلزم کی وجہ سے برطانیہ میں بریگزٹ ہوا اور بورس جانسن کو اتنی واضح برتری حاصل ہوئی۔ اِس کے نتیجے میں دنیا میںسیاسی درستی کا جو تصور تھا اور اقدار میں جو برابری، انسانی فلاح اور حقوق کی بات بلند ہوئی تھی، اس کا ہمیں زوال نظر آیا۔ مہذب معاشرے میں صدر ٹرمپ نے پہلے ناقابل قبول باتوں کو ناصرف بولنا آسان کر دیا، بلکہ مقبول بنا دیا۔ اسی رائٹ ونگ نیشنلزم کی زد میں ہم نے کشمیر میں مودی اور بی جے پی کے کارنامے دیکھے۔ ابھی اس کی گرد نہ تھمی تھی کہ بھارت میں مسلمانوں کی شہریت پر بھی حملہ کر دیا گیا۔ پہلے نیشنل رجسٹر فور سٹیزن بنا کر مسلمانوں کو اپنے بھارتی ہونے کا ثبوت دینے کا کہا گیا اور پِھر سٹیزن امینڈمینٹ ایکٹ (شہریت ترمیمی بل) سے ان كے پاس جو ریلیف کا راستہ بچتا تھا، اس کو بھی چھین لیا گیا۔ آئندہ برسوں میں لگتا ہے دیگر ممالک بھی اسی قسم کی راہ پر چل نکلیں گے اور دنیا میں ’من و تُو‘ کی تفریق بڑھ جائے گی۔ جو لوگ آپ سے اتفاق نہیں کریں گے، انہیں غدار یا غیر محب وطن کہہ کر نظر انداز کرنے کا رجحان زور پکڑے گا۔

2019ء میں ہم نے کلائمیٹ چینج یعنی موسمیاتی تبدیلی كے خوفناک اثرات بھی دیکھے۔ انسان نے ماحول اور دنیا كی پروا کیے بغیر ترقی كے نام پر جو کام کیے ہیں، ان كے نتیجے میں ہماری دنیا بالکل بدل گئی ہے۔ اسی باعث اب دنیا کو سیلاب، طوفان، سخت سردی اور شدید گرمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دنیا کا کوئی ملک نہیں ہے جو کلائمیٹ چینج سے مکمل طور پر محفوظ ہو۔ پاکستان سوسمیاتی تبدیلیوں کے شدید دبائو کا شکار ہے، کہیں سخت گرمی اور پانی کی قلت ہے اور کہیں سردی كے ریکارڈ ٹوٹ رہے ہیں، کہیں اسموگ اور فوگ نے لوگوں کو اپنی زد میں لیا ہوا ہے اور کہیں بے وقت کی بارشوں اور قحط سالی کا سامنا ہے۔ 2019ء میں کلائمیٹ چینج کی شاید سب سے بڑی مثال آسٹریلیا کے جلتے ہوئے جنگلات ہیں، جو کئی مہینوں سے لگاتار جل رہے ہیں، ہزاروں لوگ اس سبب بے گھر ہوئے، کئی جانیں چلی گئیں اور کچھ چھوٹے شہر تو پورے کے پورے جل كر راکھ ہو گئے۔ ابھی تک یہ آگ لگی ہوئی ہے اور کم ہونے کا نام نہیں لے رہی!

جہاں 2019ء میں ہم نے کلائمیٹ چینج اور رائٹ ونگ نیشنلزم کا عروج دیکھا، وہیں ایک امید كی کرن بھی نظر آئی۔ یہ امید کی کرن ان لوگوں کی صورت میں ہے، جو پہلے خاموش تھے لیکن اب اپنی آواز بلند کر رہے ہیں۔ چاہے وہ آواز میڈیا، سوشل میڈیا، احتجاج یا کسی اور شکل میں ہو اور چاہے وہ قومی یا بین الاقوامی مسائل پر ہی اٹھائی جائے لیکن دنیا كے کچھ لوگوں نے یہ اعلان کر دیا ہے كہ جو ہو رہا ہے، وہ اِس کو تسلیم کرنے اور قبول کرنے كے لیے تیار نہیں۔ گریتھا تھمبرگ، ایک 16 سال کی لڑکی نے کلائمیٹ چینج كے خلاف آواز بلند کی اور ایک پوری تحریک کو جنم دیا۔ بھارت میں جہاں مسلمانوں کو دبایا جا رہا ہے، ان كے شہریت کے حقوق چھیننے کی کوشش كی جا رہی ہے، وہاں مسلمانوں كے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب کے لوگ بھی احتجاج كے لیے نکل آئے ہیں اور کہہ رہے ہیں كے ’بس اور نہیں! اب نہیں!‘ اِسی طرح چلی سے لبنان تک اور کچھ حد تک پاکستان میں بھی لوگ ہیں، جو اپنی آواز بلند کر رہے ہیں تاہم آنے والے دنوں میں دیکھنا پڑے گا كہ کون کس پر برتری حاصل کرتا ہے۔ اِس مِس انفارمیشن كے دور میں‘ ایسے دور میں جہاں سب ناجائز بھی جائز سا لگتا ہے، کچھ کہا نہیں جا سکتا كہ آگے کیا ہوگا۔

2019ء اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے لیکن جو کچھ شروع ہو چکا ہے، وہ اتنی جلدی ختم نہیں ہونے والا۔ بہرکیف آپ کو نیا سال مُبارَک ہو!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین