• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرے جنرل گورباچوف کے ایک مضمون پر اتنے فون ای میل اور پیغام آئے کہ میں خود گھبرا گیا کہ شاید میں نے کچھ غلطی یا فاش غلطی کردی ہے۔ کئی حاضر سروس اور ریٹائرڈ جنرل بھی ان میں شامل تھے۔ ایک صاحب نے فرمایا کچھ زیادہ ہی سخت ہوگیا ایک اور سابق وردی والے کا کہنا تھا ”بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی“کئی پیغام اختلافی تھے مگر بیشتر اور خاص کر سوشل میڈیا پر بہت لوگوں نے سراہا، کئی اخباری کالم بھی آنا شروع ہوگئے۔ اپنی رائے دینا تو ہر ایک کا حق ہے مگر کسی کی رائے کے بارے میں صرف اپنی مرضی کا مطلب نکالنا شاید ٹھیک نہیں۔ میں نے جنرل کیانی کی4 گھنٹے کی ملاقات کے حوالے سے لکھا کہ جنرل صاحب نے زیادہ تر ذمہ داری سول حکومتوں پر ڈال دی اور یہ فخریہ دعویٰ کیا کہ فوج نے پورے پانچ سال کڑوے گھونٹ پی پی کر گزارے لیکن سیاسی حکومت کو ٹوکا نہیں اور جو ان کے دل میںآیا وہ کرتے رہے یہاں تک کہ ملک کے معاشی حالات اس نازک نہج پر آگئے کہ اب اور نیچے گرے تو پھر شاید سنبھالنا مشکل ہو جائے۔ میں پچھلے 3-4سال سے لکھ رہا ہوں اور اگست 2009ءمیں جب میں نے پہلی بار یہ لکھا تھا کہ فوج کو اپنا چھوڑا ہوا فضلہ یعنی جنرل مشرف کے زمانے کا ملبہ، NRO کی لعنت، ججوں کی بحالی اور کئی دوسرے غلط فیصلوں کا بوجھ،خود ہی صاف کرنا چاہئے تھا اور ان سب مصیبتوں کا بوجھ ایک نئی اورناتجربہ کار سیاسی حکومت پر نہیں ڈالنا چاہئے تھا تو ایک مضمون کے جواب میں 29مضمون میرے خلاف لکھے یا لکھوائے گئے اور ہر ایک میں یہ کہا گیا کہ میں دوبارہ فوج کو Coup کی دعوت دے رہا ہوں حالانکہ میں نے ایسی کوئی بات نہیں لکھی تھی مگر لکھنے والے تو اپنی مرضی کا مطلب نکال کر پھر گالی گلوچ کرتے ہیں۔میں شروع سے یہ کہہ رہا تھا کہ فوج کو پیچھے بیٹھ کراپنا وزن صحیح فیصلوں اور گند صاف کرنے کے لئے استعمال کرنا چاہئے تھا مگر ہمارے کم عقل سیاستدانوں میں اتنی سمجھ اور اعتماد نہیں تھا اور ان کا ایجنڈا ہی کچھ اور تھا۔ حکومت والے تو آتے ہی اس طرح لوٹ مارپر لپکے کہ ہر چیز سے اپنے آپ کو الگ کرلیا اور صرف ان چیزوں میں مصروف ہوگئے جہاں اربوں اور کھربوں کی کمائی نظر آ رہی تھی پرانے حساب چکانے تھے۔ جناب صدر سب کام چھوڑ کر دنیا بھر میں بزنس ڈیل کے MOUs کرتے پھرے سارے بڑے بڑے ادارے دوستوں کے حوالے کردیئے اور کھوکھلے ہوتے گئے۔ ملک کی اہم ترین پالیسیاں یعنی دہشت گردی کے خلاف جنگ، خارجہ پالیسی، معاشی پالیسی سب سے ہاتھ کھینچ کر اپنے مال بٹورنے میں لگے رہے۔ یہ سیاسی اور سول قیادت کی غلطی تھی اور نا اہلی تھی مگر اس کا نقصان ملک کو ہو رہا تھا۔ قرضے کھربوں میں لئے گئے اور نوٹ چھاپ چھاپ کر ڈالر ملک سے باہر بھیج دیئے گئے۔ صنعت کار دوسرے ملکوں میں مشینیں لے گئے اور روزگار ناپید ہوگیا۔ میرا کہنا یہ تھا کہ فوج اور جنرل کیانی یہ سب دیکھتے رہے اور کچھ نہ بولے۔آخر کیوں؟ بولنا ان کو اس طرح نہیں چاہئے تھا کہ111 بریگیڈ کو آرڈر کرتے کہ TV اور وزیر اعظم کے گھر پر قبضہ کرلو۔بولنا ان کو اس طرح چاہئے تھا جس طرح انہوں نے ایک فون کر کے لانگ مارچ کو رکوا دیا اور حالات کو خرابی سے بچایا۔ بولنا اس طرح چاہئے تھا جیسے کیری لوگر بل کے وقت فوج سامنے آئی اور امریکہ کو اپنا موقف بدلنے پر یا پاکستان کی بات سننے پر مجبور کیا گو ہمارے سفیر یہ نہیں چاہتے تھے۔ بولنا اس طرح چاہئے تھا جیسے وہ میمو گیٹ میں بیان حلفی لے کر کود پڑے اور عدالت عالیہ کی عزت افزائی کی۔ بولنا اس طرح چاہئے تھا جیسے ان کے ISI کے سربراہ منتخب اسمبلی کے سامنے پیش ہوئے اور لوگوں کو قائل کیا۔ بولنا اس طرح چاہئے تھا جیسے سلالہ میں حملہ ہوا تو 9مہینے نیٹو کی سپلائی روک دی گئی۔ آخر کس سیاسی لیڈر نے وہ فیصلہ کیا تھا۔ اب اگر یہ تمام فیصلے کئے گئے اور ان سے جمہوریت اور سیاسی حکومتوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تو پھر کس چیز نے روکے رکھا کہ فوج نے ملک میں اداروں کو مضبوط نہیں ہونے دیا۔ کیا خفیہ پیغامات بھیجے گئے کہ عدالت عالیہ فوج کو آرٹیکل 190کے تحت نہ بلائے کیونکہ فوج شاید نہ آئے۔ کیوں بے خود اور آپے سے باہر سیاستدانوں کو ہر ادارے کا ملیا میٹ کرنے کی اجازت دی گئی اور جمہوریت کے اندر ہی رہتے ہوئے، آئین کا استعمال کرتے ہوئے ان بے لگام لیڈروں کو نہیں روکا گیا۔ کیسے وہ شخص جس کو عدالت اور ایک عدالتی کمیشن نے تقریباً غدار قرار دے دیا تھا ملک سے جھوٹ بول کر اور مکاری کرکے فرار ہوگیا۔ کیوں ملکی اداروں اور بڑی بڑی کارپوریشنوں کو لوٹ کھسوٹ کرکے کھوکھلا کرنے دیا گیا۔ کیا یہ سب نظر نہیں آ رہا تھا اور اگر ہر چیز باقی سب کو نظر آرہی تھی تو ان تمام غلط کاریوں کو روکنے کےلئے Red lines کیوں نہیں کھینچی گئیں،کیا فوجی قیادت بلیک میل ہوگئی۔ یہ کہانیاں تومبینہ طورپر ہر طرف گردش میں تھیں کہ کچھ فائلیں جنرل کیانی کو دکھائی گئی ہیں۔ کیا سیاسی بلیک میل اور سندھ کارڈ سے ڈر گئے۔ آخر کچھ تو کوتاہی ہوئی کہ اپنی مرضی کے فیصلے تو کرالئے اور ملک کے مفاد میں کوئی اس بلدکار کو نہ رکوا سکا۔ کیا ملک کی عدالتوں کو، NABکو، وزارت خزانہ کو اور احتساب کے اداروں اور محتسب حضرات کو یہ کہہ کر تقویت نہیں دی جاسکتی تھی کہ آپ اپنا کام بے خوف و خطر کریں اور جمہوری اور آئینی طریقوں سے ہی اس سیاسی یلغار کو روکیں تاکہ اتنی خرابی نہ ہو جائے کہ کسی کے ہاتھ میں کوئی نسخہ کارگر نہ رہے۔ کیا یہ نہیں ہوسکتا تھا کہ گوادر کو چین کو دینا اور ریکوڈک کے ذخائر پر نظر رکھنے والے ہمارے لیڈروں کو وقت پر روکا جاسکتا۔ کسی نے وزیر اعلیٰ اسلم رئیسانی سے پوچھا کہ کیوں انہوں نے یہ بیان دیا کہ انہیں ریکوڈک کی وجہ سے ہٹایا گیا ہے۔ کون اس قومی دولت کو لوٹنے اور بانٹنے کے چکر میں تھا اور کس نے روکا۔
یہ سب باتیں میں نے اس لئے لکھیں کہ فوج نے اپنا وہ کردار ادا نہیں کیا جو ایک ملکی مفاد میں بے غرض ادارہ کرتا ہے۔ جنرل کیانی نے بہت صبر سے کام لیا اور اب بھی لے رہے ہیں مگر اب بھی وقت ہے کہ فوج اپنا وزن ڈالے اور اس نظام کو پھر بلیک میل نہ ہونے دے لوٹنے والے تو اپنا مال و متاع باہر لے گئے اور اب خود بھاگنے کے چکر میں ہیں۔ عدالتوں اور میڈیا نے اپنا کام بہت نقصان اٹھا کر بھی کیا ہے مگر جمہوریت کے نام پر بلیک میلنگ اب بند ہونی چاہئے۔ اب انتخابات آگئے ہیں اور یہی ملک کی قسمت کا فیصلہ کریں گے۔ یہاں فوج کا عمل دخل نہ صرف ضروری ہے بلکہ لازمی ہے کیونکہ سیاسی بساط لگانے والوں نے سارے پتے سجا رکھے ہیں ایک نمائشی فخرو بھائی کو سامنے رکھ کر سارے فیصلے اپنے مقرر کردہ حواریوں سے کرائے جا رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن بے چارہ یتیم نظر آ رہا ہے نہ جعلی ڈگریوں پر کوئی عمل، نہ ٹیکس چوروں کی پکڑ، نہ 63/62 کی کوئی پروا، ہر سیاسی موڑ پر جھوٹ اور فریب سے کام ڈاکٹر قادری کو ڈاکٹر پادری بنا دیا گیا اور جنرل کیانی کو جنرل گیانی یعنی ایک ایسا عالم فاضل جو اپنا علم بگھارتا رہے اور اسکے ہاتھ میں کچھ نہ ہو۔ الیکشن کمیشن کو فوج کی ضرورت ہے مگر سیاست دان کبھی راضی نہ ہوں گے۔ فخرو بھائی کو دبنگ1 ، دبنگ 2اور دبنگ 3 جیسے لوگ چاہئیں مگر وہ کیا کریں وہ تو آخر یہ گیت گاتے گزر جائیں گے ”منی بدنام ہوئی ڈارلنگ تیرے لئے“ اور ملک کا تیا پانچہ ہوجائیگا۔
تازہ ترین