• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
موڈی دنیا کی ایک بڑی ریٹنگ ایجنسی ہے جو مختلف ممالک کی معاشی کارکردگی کی بنیاد پرکنٹری ریٹنگ کرتی ہے جسے مدنظر رکھتے ہوئے سرمایہ کار اس ملک میں سرمایہ کاری کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ موڈی اور اسٹینڈرڈ اینڈ پوور دنیا کی سب سے بڑی ریٹنگ ایجنسیاں ہیں جن کی رپورٹس کو عالمی مالیاتی ادارے کسی بھی ملک کو قرضے دیتے وقت اہمیت دیتے ہیں۔ موڈی نے اپنی حالیہ رپورٹ میں پاکستان کی ریٹنگ -Caal برقرار رکھتے ہوئے اس کی معاشی گروتھ میں کمی کا سبب انرجی بحران، امن و امان کی خراب صورتحال، حکومتی قرضوں میں اضافہ، سیاسی عدم استحکام، ٹیکس وصولی، زرمبادلہ کے ذخائر، بیرونی سرمایہ کاری میں کمی اور بڑھتا ہوا مالی خسارہ بتایا ہے۔ اسٹیٹ بینک نے بھی حال ہی میں اپنی مالیاتی پالیسی پر نظرثانی کرتے ہوئے ڈسکاﺅنٹ ریٹ کو 9.5% کی شرح پر برقرار رکھا ہے اور مستقبل میں افراط زر میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق2013ءکے باقی 5 ماہ میں پاکستان کو آئی ایم ایف کے1.6ارب ڈالر اور2014ءمیں 3.2ارب ڈالر ادا کرنے ہیں جس سے ملکی زرمبادلہ کے ذخائر پر دباﺅ برقرار رہےگا جسکے باعث پاکستانی روپے کی ڈالر کے مقابلے میں قدر تقریباً 100 روپے تک پہنچ گئی ہے۔ پرانے قرضوں کی ادائیگی کیلئے نئی حکومت کو دوبارہ آئی ایم ایف سے نئے قرضے لینے پڑینگے۔ وزارت خزانہ نے اپنی رپورٹ میںیہ اعتراف کیا ہے کہ زیادہ سبسڈی اور ریونیو کے کم حصول کے باعث حکومت کو زیادہ قرضے لینے پڑے ہیں جس کی وجہ سے 2011-12ءمیں مجموعی حکومتی قرضے جی ڈی پی کا 61.3% ہوگئے تھے جو مالی ذمہ داری اور قرضوں کے حد کے قانون 2005ءکی خلاف ورزی ہے۔ ملکی مالی خسارہ بڑھ کر جی ڈی پی کا 6% سے 7% ہوگیا ہے جبکہ رواں سال اس کا ہدف 4.7% تھا۔ آنیوالا وقت الیکشن کا ہے جس سے ملک میں غیر یقینی صورتحال اور سیاسی عدم استحکام معاشی کارکردگی کو متاثر کریگی۔
نقصان میں چلنے والے قومی ادارے پیپکو، ریلوے، پی آئی اے، اسٹیل مل بدانتظامیوں کی وجہ سے دیوالیہ کے قریب ہیں اور قومی خزانے پر ایک بہت بڑا بوجھ ہیں حکومت کا ایک اچھا ادارہ پی ایس او جو پیپکو، واپڈا کو بجلی پیدا کرنے کیلئے تیل فراہم کرتا ہے کی پی ایس او کو تیل کی ادائیگی نہ کرنے کی وجہ سے آج یہ ادارہ بینکوں میں ڈیفالٹ ہونے جارہا ہے جبکہ انتخابات کے پیش نظر حکومت کا اب بھی اس ادارے پر زور ہے کہ وہ پیپکو اور واپڈا کو زیادہ سے زیادہ تیل کی فراہمی یقینی بنائے۔ پی ایس او کے ڈیفالٹ کے پیش نظر میں نے خود پی ایس او کے ایم ڈی کےساتھ وفاقی وزیر خزانہ سلیم مانڈوی والا اور وفاقی سیکریٹریز سے اسلام آباد میں ملاقات کی۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ وزارت خزانہ واپڈا کو دی جانےوالی پورے سال کی سبسڈی 185ارب روپے 7 ماہ میں ہی مکمل ادا کرچکا ہے لیکن میں وزیر خزانہ کا مشکور ہوں کہ انہوں نےPSO کو 15ارب روپے فوری ادائیگی کی ہدایت دی۔ بجلی پیدا کرنے والے اداروں کا سرکلر ڈیٹ جو 13اگست 2012ءتک تقریباً 350ارب روپے تک ہوگیا تھا ملکی معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے اور خدشہ ہے کہ ان کی وجہ سے پی ایس او، SSGC اور SNGC جیسے منافع بخش ادارے بھی ڈیفالٹ کا شکار نہ ہوجائیں۔ میں پہلے بھی حکومت کو تجویز دے چکا ہوں کہ وہ جلد از جلد ان اداروں کے انتظامی بورڈ تبدیل کرکے پرائیویٹ سیکٹر سے پروفیشنلز لاکر ان اداروں میں گڈ گورننس یقینی بنائے۔ واپڈا کو ہنگامی بنیادوں پر بجلی کی چوری کی روک تھام اور ادارے سے کرپشن کا خاتمہ کرنا ہوگا اور اپنے بلوں کی وصولی کو موثر بنانا ہوگا۔ واپڈا کو گزشتہ سال اگست تک 290 بلین روپے وصول کرنے تھے جس میں وفاقی حکومت سے تقریباً 5 بلین روپے، صوبائی حکومتوں سے85 بلین روپے اور عام صارفین سے200 بلین روپے وصول کرنے تھے۔ اس کیساتھ ساتھ حکومت کو فرنس آئل سے بجلی پیدا کرنے کی استطاعت کو کم کرکے ہائیڈرو پاور جنریشن میں اضافہ کرنا ہوگا تاکہ فرنس آئل سے مہنگی بجلی پیدا کرنے پر انحصار کم ہوسکے۔ حکومت کو قبائلی علاقوں اور فاٹا میں بجلی کے میٹر لگانے اور انکے بلوں کی وصولی کے میکنزم کو قابل عمل کرنا ہوگا اور قومی خزانے پراربوں روپے کے سبسڈی کے بوجھ کو مرحلہ وار ختم کرنا ہوگا نہیں تو ہم کبھی بھی سرکلر ڈیٹ سے نہیں نکل سکیں گے۔ملکی معیشت کی ترقی کیلئے صنعتی ترقی لازم و ملزوم ہیں، بجلی اور گیس کی تسلسل سے فراہمی کے بغیر ملک میں صنعت کاری نہیں ہوسکتی بلکہ لوڈ شیڈنگ سے موجودہ صنعتیں بھی بحران کا شکار ہیں اور ملک میں بیروزگاری میں اضافہ ہورہا ہے، ملک میں غربت میں کمی اور امن و امان میں بہتری کیلئے ضروری ہے کہ صنعت کاری کو فروغ دیکر نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا کئے جائیں۔ حال ہی میں کابینہ کیECC نے گیس لوڈمینجمنٹ پالیسی2013ءکے تحت گیس کی سپلائی کی ترجیحات کا اعلان کیا ہے کہ وہ صنعت اور فرٹیلائزر انڈسٹری کی پنجاب میں مارچ اور نومبر کے دورانئے میں 64% گیس کی ضرورت کو پورا کرےگی جبکہ رہائشی اور کمرشل صارفین کو گیس کی مکمل فراہمی یقینی بنائی جائیگی۔ اسی پالیسی میں پورے ملک میں گیس سپلائی کی ترجیحات میں رہائشی اور کمرشل صارفین پہلے نمبر، بجلی پیدا کرنےوالی کمپنیاں آئی پی پیز، واپڈا، کے ای ایس سی دوسرے نمبر، صنعت اور فرٹیلائزر تیسرے نمبر، سیمنٹ انڈسٹری چوتھے نمبر اور سی این جی انڈسٹری پانچویں نمبر پر ہوگی۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ سیمنٹ سیکٹر میں زیادہ تر صنعتیں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے پر منتقل ہوچکی ہیں۔ 3 سالہ تجارتی پالیسی 2012-15ءمیں ایکسپورٹ کا ہدف 95 بلین ڈالر رکھا گیا ہے جبکہ ہماری ایکسپورٹ بمشکل 24 سے 25 بلین ڈالر ہے۔ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے اس ہدف کو حاصل کرنا نہایت ہی مشکل نظر آتا ہے۔ ہمیں ٹیکسٹائل سیکٹر میں مزید ویلیو ایڈیشن کی طرف جانا ہوگا تاکہ ہم اپنی مصنوعات کی زیادہ قیمت حاصل کرسکیں۔ پاکستان میں ایک ملین بیلز کاٹن سے ہمیں ایک بلین ڈالر حاصل ہوتا ہے۔ انڈیا میں اس سے2 بلین ڈالر اور چائنا ویلیو ایڈیشن کرکے اس سے 4 بلین ڈالر حاصل کرتا ہے۔ ٹیکسٹائل میں ویلیو ایڈیشن کے فروغ کیلئے ٹیکسٹائل اور تجارتی پالیسیوں میں ٹیکسٹائل سیکٹر کو جو مراعات دی گئی تھیں اس کیلئے وزارت خزانہ نے ایکسپورٹرز کو ادائیگی کیلئے فنڈز TDAP اور اسٹیٹ بینک کو فراہم نہیں کئے جس کی وجہ سے ہم ان اچھی پالیسیوں سے وہ نتائج اور ہدف حاصل نہ کرسکے جن کیلئے یہ بنائی گئی تھیں جبکہ انڈیا اور بنگلہ دیش میں ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کو اس سے زیادہ مراعات حاصل ہیں۔ تجارتی پالیسی میں ایگزم بینک کے قیام کا اعلان ایک خوش آئند بات ہے کیونکہ ایگزم بینک ہر ترقی یافتہ ملک میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے جو ایکسپورٹرز اور امپورٹرز کو نرم شرائط پر قرضے فراہم کرتا ہے۔ صدر پاکستان کے حالیہ دورہ کوریا میں میری گورنر اسٹیٹ بینک کے ساتھ کوریا کے ایگزم بینک کے چیئرمین سے دارالحکومت سیول میں ملاقات ہوئی اور کورین ایگزم بینک نے پاکستان کو 200 ملین ڈالر کے نرم شرائط پر قرضے دینے کیلئے معاہدے پر دستخط کئے ہیں۔ صدر پاکستان نے ایگزم بینک کے چیئرمین سے پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت میں وسعت کیلئے سرمایہ کاری کی درخواست کی۔ چائنا کی صنعتی اور انفرااسٹرکچر ترقی میں چائنا کے ایگزم بینک کا اہم کردار ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ نئی ٹریڈ پالیسی میں ایگزم بینک کے اعلان کو ترجیحی بنیادوں پر عملی جامہ پہنایا جائے گا۔
تازہ ترین