• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آہ! کیا منحوس دن تھا وہ (27دسمبر)! اچانک فون پر کسی نے خبر دی کہ: ”بی بی نہیں رہیں“۔

مجھے یقین نہ آیا تو اُس نے کہا کہ ”انہیں لیاقت باغ میں جلسے سے نکلتے ہوئے دہشت گرد حملے میں مار دیا گیا“ اور فون کرنے والے کی چیخوں میں مَیں اپنے حواس کھو بیٹھا۔ ابھی تین روز ہوئے جب وہ لاہور میں کھوسہ صاحب کے گھر مقید تھیں کہ ہم درجن بھر صحافی مُنوں بھائی کی قیادت میں اُن سے ملنے گئے تو مجھ سمیت سب ہی کا اصرار تھا کہ بی بی آپ پنڈی کے جلسے میں مت جائیں وہاں آپ پر حملے کی افواہیں بہت گردش میں ہیں۔

بی بی نے کہا کہ جونہی میں پنجاب میں داخل ہوئی تو رحیم یار خان اور پھر ملتان میں بھی ایسی ہی خبریں ملی تھیں، لیکن میں کیا کروں کہ عوامی طاقت کو متحرک کئے بغیر میری سیاست آگے نہیں بڑھ سکتی اور مجھے یہ رسک لینا پڑے گا ورنہ بےموت ماری جاؤں گی۔

منوں بھائی اور میں بہت مصر رہے کہ آپ کی جان کو بہت خطرہ ہے لیکن وہ نہ مانیں؛ اُن کے عزائم و قرائین سے یوں لگا جیسے وہ شہادت کیلئے تیار تھیں! بی بی سے یہ آخری ملاقات یادگار تھی۔ میثاقِ جمہوریت، آئینی اصلاحات، سویلین و پارلیمانی بالادستی،

عدلیہ و میڈیا کی آزادی، انسانی و نسوانی حقوق، اقلیتوں اور خواتین کے مساوی حقوق کیلئے اور دہشت گردی و مذہبی انتہا پسندی، غربت و جہالت کے خاتمے اور جنوبی ایشیا میں امن و ترقی کیلئے وہ بہت گرمجوش دکھائی دیں۔ اُن سے NROپر کافی مباحثہ رہا۔

بی بی کا اصرار تھا کہ تدبیری (Tactically) طور پر وہ چاہتی تھیں کہ مشرف ایک بار انتخابات کا راستہ کھولے تو اس سے رُکا ہوا جمہوری عمل بحال ہو جائے گا اورآمریت کے خاتمے کی راہ ہموار ہو سکے گی۔ ظاہر ہے فریقین نے بھی اسے اپنے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا۔

اور بی بی بھی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خود بھی واپس آگئیں اور یوں اُنہوں نے نواز شریف کی واپسی کی راہ بھی ہموار کر دی اور میاں صاحب جلاوطنی ترک کرکے واپس آ بھی گئے۔ ایک اور بڑا قدم جو اُنہوں نے اُٹھایا اور جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا، وہ تھا میاں نواز شریف کو انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ بدل کر انہیں حصہ لینے پرراضی کرنا۔

دونوں بڑے لیڈروں اور پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کی باہمی انڈر اسٹینڈنگ سے انتخابات میں اُترنے کا فیصلہ آمریت کے خاتمے کے مترادف تھا۔

جب ٹیلی وژن پر ہم نے چاروں طرف سے بی بی کی گاڑی پر حملے کے مناظر دیکھے تو لگا تھا کہ ہر طرف سے دہشت کی یلغار ہو رہی ہے۔

تحریکِ طالبان پاکستان کی جاری کردہ کتاب ”انقلابِ محسود“ میں بی بی کے قتل کی ذمہ داری قبول کی گئی تھی جس میں بیت اللہ محسود، اکرام و دیگر پانچ ملزمان ملوث تھے جو بری کر دئیے گئے تھے اور جنکی رہائی کا مطالبہ ٹی ٹی پی کی قیادت نے نواز حکومت سے ہونے والے مذاکرات کے وقت کیا تھا۔

ظاہر ہے کہ بی بی کے قتل میں صرف طالبان ہی نہیں بلکہ اُنکے بہت سے سرپرست بھی شامل تھے۔ بی بی کے مقدمے کا تو کیا نتیجہ نکلنا تھا، اُلٹا اصل قاتلوں پر پردہ ڈالنے کیلئے جانے کیا کیا کچھ نہیں کیا گیا۔

مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب بی بی لمبی جلاوطنی کے بعد کراچی آئی تھیں تو ہم بہت سے دوست اُن کے استقبال کو دیکھنے کیلئے کراچی گئے تھے۔ ایک روز قبل کراچی کے صحافی دوستوں سے بی بی کے استقبال بارے استفسار کیا تو ان کا عمومی خیال تھا کہ زیادہ سے زیادہ پچاس ہزار لوگ ان کے استقبال کیلئے جمع ہوں گے۔

رات کو جب ہم لیاری اور دوسرے بلوچ علاقوں میں گئے تو وہاں لاکھوں لوگ پی پی کے ترانوں پررقصاں پائے گئے۔ جب میں جیو کے دفتر گیایہی دعویٰ سننے میں آیا کہ پچاس ساٹھ ہزار افراد ہوں گے، جس پر میں ششدر ہوکے رہ گیا اور اس سے کہا کہ کراچی میں کوئی ڈیڑھ دو لاکھ افراد اس وقت رات گئے بھی بی بی کے استقبالی گیت گا رہے ہیں۔

اگلے ہی روز ہم بہت سے دوستوں کے ساتھ ایئرپورٹ کیلئے روانہ ہوئے تو ہر طرف لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا۔ یوں لگا کہ بی بی اپنے لاہور کے 1986 والے فقید المثال استقبال کا ریکارڈ توڑنے جا رہی ہیں۔

یقین مانیے مجھے بی بی کا استقبال دیکھ کر جو پہلا خیال آیا وہ تھا کہ بی بی کا یہ عظیم الشان استقبال محترمہ کیلئے کہیں جان لیوا نہ ہو جائے۔ اس خدشہ پرکہ بی بی کے جلسے پر خودکش حملہ ہو سکتا ہے کا اظہار جب میں نے اپنے دوست ڈاکٹر جبار خٹک سے کیا تو اُنہوں نے پریشان ہوکر آصف علی زرداری سے میرے خدشے کا اظہار کردیا۔

اس پر زرداری بہت پریشان ہوگئے اور بار بار میرے خدشے کی کُرید کرتے رہے اور یہ تقاضا بھی کرتے رہے کہ کیا میرے پاس اس بابت کوئی مصدقہ اطلاع ہے۔ میرا جواب تھا کہ میرے پاس اس بارے کوئی اطلاع ہے نہ خبر۔

بس یہ میرا خدشہ ہے اور آپ بی بی کیلئے حفاظتی اقدامات کریں۔ فون پر ہونے والی اس گفتگو کے بعد زرداری نے بی بی کو دبئی سے بار بار فون کئے کہ وہ ٹرک کے اوپر سے ہٹ جائیں اور بی بی کی سکیورٹی پر متعین لوگوں کو بھی سخت حفاظتی اقدامات کی ہدایات کرتے رہے۔

شام کو ہم کارساز کی جانب روانہ ہوئے ہی تھے کہ بم دھماکے ہوگئے۔ پی پی پی کے سیکڑوں کارکن شہید اور زخمی ہوگئے اور بی بی بال بال بچ گئیں۔ بعد ازاں زرداری اور بی بی نے مجھ سے کئی بار پوچھا کہ میرے پاس ضرور کوئی اطلاع تھی۔ اطلاع تو ہمارے پاس دسمبر میں کھوسہ ہاؤس میں بی بی سے ملاقات کے وقت بھی نہ تھی کہ راولپنڈی میں جان لیوا حملہ ہوسکتا ہے۔

کارساز پر دہشت گردی کے بعد بی بی کو رحیم یار خان میں مارنے کا منصوبہ تھا جو بالآخر راولپنڈی میں کامیاب ہوگیا۔ بی بی کو شہید ہوئے بارہ برس بیت گئے اور اُن کے قاتلوں کے بارےمیں جانتے ہوئے بھی کُچھ نہ کیا جا سکا۔ کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں؟

تازہ ترین