• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں پاکستان میں جہاں ایک طرف بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا 144 واں یوم پیدائش جوش و خروش سے منایا جارہا تھا اور پاکستانی عوام آزاد قوم ہونے پر جشن منارہے تھے تو دوسری طرف بھارت بالخصوص مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے تھے اور مسلمان اپنے حقوق اور بقا کی جنگ لڑرہے تھے۔ آج قائداعظم کا دو قومی نظریہ اور 70 سال قبل اُن کی دوراندیشی کہ ’’ہندوستان میں مسلمانوں کے حقوق محفوظ نہیں ہوں گے‘‘درست ثابت ہوئی ہے۔

اس بار قائداعظم کی یوم ولادت کے موقع پر پاکستان میں گزشتہ سالوں کی نسبت زیادہ گرمجوشی دیکھنے میں آئی۔ اس حوالے سے پاکستان رینجرز (سندھ) کی جانب سے ایک بہت ہی خوبصورت تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ ڈی جی رینجرز کی جانب سے موصول ہونے والے دعوت نامے پر ’’شکریہ جناح‘‘ کا عنوان دیکھتے ہی میں نے دیگر تمام تقریبات منسوخ کرکے اس تقریب میں شرکت کا فیصلہ کیا تاکہ میں بھی تقریب کا حصہ بن کر آزاد وطن دینے پر قائد کا شکریہ ادا کرسکوں۔ تقریب کا اہتمام مزار قائد کے احاطے میں کیا گیا تھا۔ تقریب میں ڈی جی رینجرز میجر جنرل عمر بخاری، کور کمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل شاہد بیگ مرزا شریک تھے جبکہ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور اسلام آباد سے خصوصی طور پر اس تقریب میں شرکت کیلئے کراچی آئے تھے۔ قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں اور پولیس کے اعلیٰ افسران بھی اپنی فیملیوں کے ہمراہ تقریب میں موجود تھے جبکہ مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات سمیت شہریوں اور طلباء و طالبات نے بھی بڑی تعداد میں تقریب میں شرکت کی۔ اس موقع پر میں نے اتنی خوبصورت تقریب کا انعقاد کرنے پر ڈی جی رینجرز سندھ اور کور کمانڈر کراچی کو مبارکباد پیش کی۔

رات کی تاریکی میں سفید سنگ مرمر سے بنے مزار کو روشنیوں میں نہلایا گیا تھا جو ہر لمحہ مختلف رنگ بدل کر نہایت خوبصورت منظر پیش کررہاتھا جبکہ لیزر لائٹس کی شعاعیں مزار قائد پر پڑنے کے بعد دلکش نظارہ پیش کررہی تھیں۔ اس موقع پر تھری ڈی پروجیکشن کے ذریعے مزار قائد پر قومی پرچم بنایا گیا جبکہ روشنیوں کے ذریعے کشمیریوں کی جدوجہد، تاریخ پاکستان اور علاقائی ثقافت کو اجاگر کیا گیا۔ دوران تقریب بانی پاکستان کے مختلف پیغامات، تقاریر کے حصے، بحالی امن کیلئے پاک فوج، رینجرز اور دیگر سیکورٹی اداروں کے اقدامات پر مبنی ڈاکیومنٹری بھی دکھائی گئی۔اس موقع پر اسکول کے سینکڑوں طلباو طالبات نے قائد اور پاکستان سے یکجہتی کے حوالے سے مختلف ٹیبلوز بھی پیش کئے۔ شدید سردی کے باوجود رات گئے جاری رہنے والی اس تقریب میں کھلے آسمان تلے بیٹھے افراد مزار قائد کے خوبصورت منظر اور تقریب سے لطف اندوز ہوتے رہے۔

کھلے آسمان تلے بیٹھا مزار قائد پر نظریں مرکوز کئے میںسوچ رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے قائداعظم کو ایک اسلامی مملکت کے قیام کیلئے بھیجا تھا جس کی تصدیق اس واقعہ سے بھی ہوتی ہے کہ قائداعظم 1930ء میں اپنے کچھ ساتھیوں کے رویئے اور ہندوستان کی سیاست سے دلبرداشتہ ہوکر برطانیہ منتقل ہوگئے۔ قائداعظم کی لندن میں خود ساختہ جلاوطنی کے دوران علامہ اقبال، لیاقت علی خان اور علامہ شبیر احمد عثمانی نے اُنہیں ہندوستان واپسی پر قائل کرنے کی بہت کوششیں کیں مگر قائداعظم آمادہ نہیں ہوئے لیکن 1934ء میں قائداعظم اچانک جلاوطنی ختم کرکے اپنی بیٹی دینا کے ہمراہ ہندوستان واپس لوٹ آئے۔ قائداعظم کے قریبی رفقاء نے جب اُن کی اچانک واپسی کی وجہ دریافت کی تو قائداعظم نے راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے اسے راز میں رکھنے کا وعدہ لیا۔ قائد نے بتایا کہ ایک رات جب وہ محوخواب تھے تو کسی نے انہیں جگایا تو حضور اکرمﷺ کی پرنور شخصیت میرے سامنے تھی جنہوں نے مجھے کہا کہ ’’محمد علی! تم ہندوستان واپس جاکر مسلمانوں کیلئے علیحدہ وطن حاصل کرو جس میں تمہیں کامیابی حاصل ہوگی اور میں تمہارے ساتھ ہوں‘‘۔ اس طرح قائداعظم کی جدوجہد آزادی کے نتیجے میں رمضان المبارک کی 27 ویں شب کو مسلمانوں کی سب سے بڑی مملکت معرض وجود میں آئی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ قائداعظم نے جس طرح تن تنہا ایک گولی چلائے بغیر مسلمانوں کیلئے علیحدہ وطن حاصل کیا، اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی جس میں یقینا اللہ اور رسولﷺ کی مدد شامل ہے۔ قائد کی وفات کے بعد اس انکشاف سے پردہ اٹھا کہ وہ جس وقت آزادی کی جنگ لڑرہے تھے، اُنہیں ٹی بی کا مہلک مرض لاحق تھا جسے انہوں نے پوشیدہ رکھا کیونکہ اُنہیں ڈر تھا کہ اگر ان کی بیماری کا راز فاش ہوگیا تو دشمن اس کا فائدہ اٹھائیں گے۔ ان کی اسی جذبہ حب الوطنی کی بدولت پاکستان معرض وجود میں آیا مگر ایک سال بعد ہی قائد اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ قائد کی وفات کے بعد سابق برطانوی وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن نے اپنی کتاب میں تحریر کیا کہ ’’اگر مجھے یہ علم ہوجاتا کہ جناح ٹی بی جیسے موذی مرض میں مبتلا ہیں تو میں مذاکرات کو طول دیتا رہتا تاکہ جناح کی موت کے بعد جدوجہد آزادی کی مہم کمزور پڑجاتی اور اِس طرح پاکستان معرض وجود میں نہ آتا۔‘‘ 

ڈی جی رینجرز سندھ کی جانب سے قائد کا شکریہ ادا کرنے کیلئے ’’شکریہ جناح‘‘ جیسی تقریب کا انعقاد ایک خوش آئند بات ہے جس کی روایت قائم رہنی چاہئے۔ تقریب سے واپسی پر میں سوچ رہا تھا کہ پاکستان اس لئے آزاد ہوگیا کہ اس وقت کے بھارتی لیڈر گاندھی اور نہرو، قائداعظم جیسی قائدانہ اور دور اندیشانہ صلاحیتوں کے حامل نہ تھے مگر افسوس کہ قائداعظم کے بعد ہمیں ان کے پائے کا کوئی لیڈر نہ مل سکا، اس لئے آزادی کے 70 سال گزرنے کے باوجود پاکستان ترقی کے وہ منازل طے نہ کرسکا جس کا خواب قائداعظم نے دیکھا تھا کیونکہ ہم قائد کے بتائے گئے راستے سے بھٹک گئے۔ آئیںہم ایک بار پھر قائد سے تجدید عہد وفاکریں کہ جس پاکستان کا خواب قائداعظم نے دیکھا تھا، ہم انشاء اللہ اس کی تعبیر کریں گے۔

تازہ ترین