• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک بین الاقوامی ادارہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پنجاب حکومت کے 36 ارب روپے کے تین اہم منصوبوں میٹرو بس، اجالا اور لیپ ٹاپ کی شفافیت جانچنے کے بعد اس کے حوالے سے رپورٹ مرتب کرے گا۔ اس بارے میں پنجاب حکومت اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے درمیان باقاعدہ ایک معاہدہ ہوا ہے۔ وزیر اعلیٰ شہباز شریف کا کہنا ہے کہ میں نے خود کو احتساب کےلئے پیش کر دیا ہے”اگر ایک پائی کی کرپشن ثابت ہو جائے تو میں ”سزا کے لئے تیار ہوں“۔
پنجاب حکومت نے ہونہار طلبہ میں ہزاروں کی تعداد میں لیپ ٹاپ تقسیم کئے ہیں اور سولر لیمپ کی تقسیم کی تقاریب جاری ہیں۔ میٹرو بس پراجیکٹ 30ارب روپے کی لاگت سے مکمل کیا گیا ہے۔ حکمران پیپلز پارٹی اور دوسری جماعتوں کی جانب سے ان پر اعتراضات اور الزامات کا سلسلہ جاری ہے ۔ کہا گیا ہے کہ لاہور کے میٹرو بس پراجیکٹ پر ساٹھ ستر ارب روپے خرچ کئے گئے اور لیپ ٹاپ اور سولر لیمپوں پر بھی اسی طرح کے الزامات عائد کئے جاتے رہے ہیں۔ چند ماہ قبل ایک اینکر پرسن نے لیپ ٹاپ سکیم پر الزامات سے بھرپور ایک پروگرام بھی کیا تھا جس کا سینیٹر پرویز رشید نے ترکی بہ ترکی جواب بھی دے دیا تھا۔ اب عام انتخابات کی تیاریاں جاری ہیں اور اس میں سیاسی رہنما ایک دوسرے پر ”لوٹ مار“ کے الزامات عائد کرتے ہیں اور انہیں ”انتخابی سرگرمیوں“ کا حصہ ہی سمجھا جاتا ہے لیکن ہمارے ملک میں تو یہ ریت ہی بن گئی ہے۔ ماضی میں بھی ایسے ہی الزامات عائد کئے جاتے رہے ہیں۔
پنجاب کی حکومت خصوصاً وزیر اعلیٰ سے اختلاف اپنی جگہ ، سب نے میٹرو بس پراجیکٹ کی اہمیت کا اعتراف کیا ہے۔ اس سے لاہور کی آبادی کو جدید اور تیز ٹرانسپورٹ کی سہولت ملی ہے۔ لیپ ٹاپ پر اعتراض درست سہی لیکن خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ نے بھی صوبہ میں اس سکیم کا آغاز کر دیا ہے۔ شہباز میاں کی سیاست سے لاکھ اختلاف لیکن ان کا یہ اقدام قابل ستائش ہے کہ انہوں نے ایک بین الاقوامی ادارے کو تین اہم منصوبوں کے حوالے سے جانچ پڑتال کرنے کی دعوت دی ہے تاکہ معلوم ہو سکے کہ ان میں اگر کوئی بدعنوانی ہوئی ہے تو کہاں ہوئی ہے اور اگر یہ ”صاف ستھرے“ ہیں تو یہ بھی عوام کو معلوم ہو سکے اور احتساب کے اس کڑے مرحلے سے گزر کر وہ ”عوام کی عدالت“ میں پیش ہو سکیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل موجودہ حکومت کے خاتمہ سے قبل رپورٹ مرتب کرے گی اور اسے عوام میں پیش کر دیا جائے گا۔ ایک مدت سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ ملک میں احتساب کے لئے ایک غیرجانبدار ادارہ قائم کیا جائے تاکہ حکومتوں کے ذمہ داروں کے خلاف جب بھی کوئی الزام عائد ہو تو یہ ادارہ اس کی چھان بین کرے اور جو بھی کرپشن میں ملوث ہو اسے اس کی سزا دی جا سکے۔ ہر سیاسی جماعت نے ایسے ادارے کے قیام کا مطالبہ تو کیا لیکن برسر اقتدار آنے کے بعد کسی نے وعدہ وفا نہیں کیا۔ نواز دور میں احتساب بیورو کا ادارہ قائم تو کیا گیا مگر پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف یکطرفہ تفتیش کی گئی۔ اس کے سربراہ کو ”احتساب الرحمن“ کا نام دے دیا گیا اور کسی کو بھی عوام یا عدالت کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا جا سکا۔ بی بی شہید کے دور میں بھی احتساب کو ”انتقامی کارروائی“ کے طور پر استعمال کیاگیا۔ ایک دو نہیں سو کے قریب مقدمات ”شریف برادران“ اور ان کے ساتھیوں کے خلاف قائم کئے گئے اور اس طرح ”احتساب“ کو ”سیاسی انتقام“ میں تبدیل کر دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملک میں چاروں طرف کرپشن کی داستانیں بکھری ہوئی ہیں۔ بہت سے اہم اداروں اور شخصیات کے خلاف سپریم کورٹ اور دوسری عدالتوں میں مقدمات زیر سماعت ہیں اور اربوں روپے کی کرپشن کے کیس سامنے آئے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ سارے ملک میں ”لوٹ مار“ کا بازار لگا ہوا ہے۔ ماضی میں لاکھوں کی بدعنوانی ہوتی تھی تو سیاسی و عوامی حلقے آسمان سر پر اٹھا لیتے تھے لیکن اب بات اربوں تک جا پہنچی ہے اور کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ”اچھے کام“ بھی الزامات کی زد میں آگئے ہیں۔
یہ درست ہے کہ ”وائٹ کالر کرائم“ ایسی باریکی سے کئے جاتے ہیں کہ کوئی ثبوت نہیں چھوڑا جاتا ۔لیکن بااختیار اور دیانتدار افسروں پر مشتمل احتساب کا مستقل ادارہ موجود ہو تو ایسے جرائم کا بڑی حد تک سدباب کیا جا سکتا ہے۔ اب پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے آگے بڑھ کر احتساب کا بھاری پتھر اٹھا لیا ہے تو نہ صرف اس کی تائید بلکہ تقلید کی جانی چاہئے۔ وفاقی وزیر داخلہ،وفاقی وزیر اطلاعات نے اس پر اعتراض کیا ہے اور پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل سینیٹر جہانگیر بدر نے بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے تو انہیں چاہئے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت بھی اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کر دے تاکہ یہ کہا جا سکے کہ ہم بھی ہر احتساب کے لئے تیار ہیں۔ اب نہ سہی تو عام انتخابات میں عوام ووٹ کی پرچی سے احتساب کر دیں گے۔ یہ کہا جا رہا ہے اور درست بھی ہے کہ عوام بڑے باشعور ہیں وہ لوٹ مار کرنے والوں کو ووٹ نہیں دیں گے۔ لیکن ملک میں احتساب کے عمل کو جاری رکھنے کے لئے احتساب کے مستقل محکمہ کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے تاکہ عام انتخابات کے بعد بلاامتیاز سیاستدان ہی نہیں افسروں ، اہلکاروں اور ٹھیکیداروں سے بھی ”تمام کئے کرائے“ کا حساب لیا جا سکے۔ یہ کڑوا گھونٹ تو ایک بار پینا ہی ہو گا۔
تازہ ترین