• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تاریخ کے ہر دور میں مذہبی پیشوا، معاشرے اور فرد کی طرز زندگی پر کسی نہ کسی طور اثر انداز ہوتے رہے ہیں۔ جدید دنیا میں بھی یہ مو ¿ثر ہیں یہاں تک کہ کمیونسٹ (ملحد) ممالک بالخصوص سوویت یونین تک میں اس حقیقت کا انکار نہیں کیا جا سکا تھا۔یوں تو کمیونسٹ اور جدید جمہوری مغربی ممالک میں مذہب کو انسان کی ذات سے نتھی کرنے کی خاطر قوانین و ضابطے بروئے کار لائے گئے لیکن ایک سچ یہ بھی ہے کہ مغربی ممالک تو کیا سوویت یونین تک میں گرجا گھروں کے ساتھ ساتھ مسجدیں بھی آباد تھیں اور ان میں روز افزوں اضافہ بھی ہوتا رہا۔ اب جب سوویت یونین قصہ ¿ ماضی بن چکا ہے اور اس کی بعض ریاستوں کو مذہب سے منسوب بھی کیا جانے لگا ہے تو عبادت گاہیں جیسی تھیں ویسی ہیں، مذہبی پیشوائیت جس رنگ تلے سرگرم تھی، اس میں کوئی تغیر نہیں آ سکا ہے۔ اسلام پہلے بھی وہاں پوری شان و شوکت سے موجود تھا، اب بھی ہے تاہم اس کا سمرقند، بخارا و کاشغر سے نیل کے ساحل تک اسی نوع کا ربط بہرکیف نہیں ہو سکا، جیسا کہ تصور تھا کہ مارکس کے نظریات سے مزین لینن کا ایستادہ بت زمین بوس ہوتے ہی پورا عالم انقلاب نو تلے سانس لینے لگے گا۔ عرض یہ ہے کہ سخت گیر سے سخت گیر ممالک میں بھی مذہبی پیشوائیت کے گرد مضبوط حصار باندھ لئے جانے کے باوجود اسے معاشرے سے مکمل طور پر دور نہیں کیا جا سکا ہے۔ اس کا اثر کہیں زیادہ ہے کہیں کم، لیکن ہے ضرور۔ یہ بھی درست ہے کہ مذہبی پیشواﺅں نے بھی بسا اوقات اصل کے جامے میں نقل، اپنے ماننے والوں کے روبرو پیش کیا اور جس سے کسی عقیدے کے بجائے گدی نشیں و مخصوص نظریات کو فوائد ملے لیکن ہمارا موضوع خالص و ناقص، حق و باطل کی بجائے چونکہ اس حوالے پر ہے کہ معاشروں پر مذہبی پیشوائیت اثر پذیر رہی ہے لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ معاشرے کا بڑا کردار بھی بعض اوقات اپنی سیاست و طرز زندگی میں کُلی سیکولر ہونے کے بجائے ریاست کیلئے مذہب کا سہارا لینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ سیکولر کے مختلف معنی اپنی تفہیم کے مطابق کئے جاتے ہیں، جن میں بعض لوگ اسے لادینیت سے تعبیر کرتے ہیں جب کہ دوسرے اس سے مراد یہ لیتے ہیں کہ ذاتی زندگی و معمولات میں آپ کسی بھی مذہب کے پیروکار ہو سکتے ہیں۔ اس کی تعلیمات آپ کا اوڑھنا بچھونا بن سکتی ہیں لیکن ریاست اور نظام مملکت کسی عقیدے کے بجائے ایک ایسے نظام کے تابع ہونا چاہئے جسے عوام کے منتخب نمائندے ایک فورم کے ذریعے معرض وجود میں لاتے ہیں۔ بہرکیف ان تمام باتوں کے باوجود امریکہ جیسا سیکولر ملک طالبان کے خلاف طبل جنگ بجاتے ہوئے جب کروسیڈ (صلیبی جنگ) کا اعلان کرنے پر خود کو مجبور پاتا ہے، تو یہ اس امر کا ثبوت ہوتا ہے کہ آپ کسی کے خلاف فوجی کارروائی کیلئے اخلاقی جواز کیلئے سہارا بہر صورت مذہب ہی کا لیتے ہیں۔
پاکستان 99 فیصد مسلمانوں کا ملک ہے لہٰذا یہاں دنیا کے دیگر ممالک کی طرح تقابل ادیان زیر بحث نہیں۔ ویسے بھی تمام مذاہب کی تعلیمات امن و آشتی کا درس لئے ہوئے ہیں اور ان میں باہم کوئی ٹکراﺅ نہیں۔ وطن عزیز میں ہمیشہ سے مذہبی رہنماﺅں یعنی علمائے کرام کو معاشرے میں عزت و توقیر حاصل رہی ہے۔ ہمارا معاشرہ مخلوط نہیں ہے اور اخلاقی معیارات سنبھالے انحطاط کے عمل میں ہمیشہ رکاوٹ رہا ہے۔ اس کی وجوہات میں جہاں ہماری روایات، مشرقی تہذیب و تمدن اور قبائلی بود و باش شامل ہیں، وہاں اس میں علمائے کرام کا بنیادی کردار بھی اہمیت کا حامل ہے۔ علمائے کرام نے پاکستان میں کبھی بھی خود کو صرف مساجد اور خانقاہوں تک محدود نہیں رکھا بلکہ وہ ہر آڑے اور مشکل وقت میں قوم کے شانہ بشانہ رہے۔ تحریک آزادی کے دوران ان کا کردار تاریخ کا روشن باب ہے جبکہ بعدازاں مختلف مسالک کے علمائے کرام نے جس طرح مختلف مسائل و مشکلات اور فتنوں کے خلاف باہم مل کر جدوجہد کی، اس کی نظیر نہیں ملتی۔ عرض کرنا یہ مقصود ہے کہ اگر پاکستانی عوام علماءکے مقلد رہے ہیں تو علماءنے بھی کسی مشکل وقت میں عوام کو تنہا نہیں چھوڑا ہے۔
اس حوالے سے یہ امر باعث تشویش ہے کہ گزشتہ ایک عرصے سے علمائے کرام کا وہ کردار نظر نہیں آ رہا جو وہ ماضی میں ہر مشکل و بحرانی وقت میں ادا کرتے رہے ہیں۔ویسے تو امریکہ نائن الیون کے بعد اس خطے میں نظر آیا، لیکن درحقیقت1979ءمیں سوویت یونین کو زیر کرنے کیلئے اس نے لاﺅ لشکر سمیت اس خطے میں پڑاﺅ ڈالا تھا، سوویت یونین کی شکست کے بعد، واپسی کے بعد بھی وہ اپنی باقیات کی صورت میں یہاں موجود تھا بلکہ درست یہ ہے کہ قیام پاکستان کے فوری بعد وقت کے سامراج برطانیہ کی جگہ اس نے لے کر ایشیا بالخصوص پاکستان ہی کو اپنا بنیادی ہدف بنا ڈالا تھا۔ اب ہم امریکہ کی موجودگی کا اگر رونا روتے ہیں تو امریکہ کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی اداﺅں پر بھی غور کرنا چاہئے کہ ہم کیونکر امریکہ کو اس خطے میں لائے؟ بہرکیف نائن الیون کے بعد بالخصوص پاکستان کو جن مسائل کا سامنا ہے ان میں دہشت گردی سرفہرست ہے۔ اس کی مختلف توجیہات کی جاتی ہیں اور مختلف عوامل کا اس میں عمل دخل ظاہر بتایا جاتا ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ وطن عزیز میں مسلمان ہی مر رہے ہیں اور مسلمانوں ہی کا نقصان ہو رہا ہے۔ ایک عرصے سے ملک میں شیعہ سنی افراد کا قتل عام جاری ہے، حالانکہ شیعہ سنی سمیت عوام کے مختلف مسالک اور مکاتب فکر کے مابین اختلاف کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ تمام مسالک سے وابستہ افراد دفاتر، محلوں، شہروں میں باہم شیر و شکر رہتے ہیں اور ایک دوسرے کے قتل پر باہم رنجیدہ اور ایسے کسی عمل کو ناپسندیدہ قرار دیتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ غیر سیاسی علمائے کرام اس حوالے سے آگے آئیں اور ملک میں قیام امن کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ جہاں تک طالبان کی بات ہے، تو ان کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کا فائدہ اٹھایا جانا چاہئے۔ اس سلسلے میں ایسے علماءخود آگے بڑھ کر کردار ادا کریں جو غیر متنازع ہیں۔ سیاسی، مذہبی جماعتیں محض ووٹ و سیاسی مفاد کی خاطر آئے روز پینترے بدلتی رہتی ہیں لیکن عملاً اس کی جانب وہ ایک قدم بھی پیشرفت نہیں کر پاتیں۔ معاملہ تقریروں، بیانات، مذمت اور اظہار افسوس سے بہت آگے بڑھ چکا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ علمائے کرام آگے آئیں جو اس صورتحال سے ذہنی و قلبی طور پر صدمے سے دوچار ہیں لیکن خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ تبلیغی جماعت کے علمائے کرام کی خدمات سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ اس جماعت کے علمائے کرام ایک عرصہ قبل کراچی آئے تھے اور اس سلسلے میں ایم کیو ایم اور دیگر جماعتوں سے بھی ملے تھے۔ ایک اطلاع کے مطابق لیاری میں دو گروپوں کے درمیان صلح بھی ان کی کوششوں کی مرہون منت ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے بھی غیر سیاسی تبلیغی جماعت ہی سب سے موثر کردار ادا کر سکتی ہے۔
تازہ ترین