16 مارچ کی تاریخ سر پر آن پہنچی!
حکومتوں کی ”رن تھرو“ گاڑیاں سرپٹ دوڑ رہی ہیں تاکہ عبوری حکومت کی گاڑی سے ان کا ملاپ ہو سکے! ادھر سیاسی پارٹیوں کی پیلی ٹیکسیاں بھی سواریاں اٹھانے کے لئے اسی منزل کو دوڑ رہی ہیں!
مگر جناب ذرا رکئے! .... لوگ لکھنے والے کی بات سے اپنی مرضی کے مطلب اور معنی اخذ کر لیتے ہیں اور لکھنے والا منہ دیکھتا رہ جاتا ہے کہ میں نے ایسے تو نہیں کہا تھا۔ اس لئے ضروری ہے کہ کچھ اصطلاحات اور الفاظ کو کھول کر بیان کر دیا جائے تاکہ کچھ پراگندہ ذہن لوگ اس تحریر کو کسی اور رنگ میں پیش نہ کر سکیں!
”رن تھرو“ (Run Through) ایسی ریل گاڑی کو کہتے ہیں، جو چھوٹے موٹے سٹیشنوں کو چھوڑتی ہوئی، سیدھی منزل مقصود پر جا کر رکتی ہے۔ عوام الناس کے لئے مخصوص ٹرین کو پسینجر ٹرین کہا جاتا ہے جو ہر سٹیشن پر مسافر اتارتی چڑھاتی آگے بڑھتی ہے۔ اس لئے ”رن تھرو“ کا مطلب وہی سمجھا جائے جو اوپر بیان کیا گیا ہے، اسے پنجابی والی ”رن“ ہرگز اور قطعاً نہ سمجھا جائے! اسی طرح Taxi انگریزی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے کہ ایسی کار جس میں عام آدمی کرایہ دے کر سفر کر سکتا ہے اور جسے سرراہ ہاتھ کا اشارہ کرکے روکا جا سکتا ہے۔ اس سے مراد اردو میں مستعمل ٹیکسی ہرگز نہیں، جیسا کہ ایک صاحب رات کو اپنی کار پر کہیں جا رہے تھے کہ فٹ پاتھ پر کھڑی ایک خاتون نے ہاتھ سے انہیں رکنے کا اشارہ کیا، انہوں نے گاڑی روک لی، خاتون نے جب ٹیکسی کے بجائے عام کار رکتے دیکھی تو ان صاحب سے بولیں!
”معاف کیجئے .... میں نے آپ کو ٹیکسی سمجھ کر روکا تھا!“
وہ صاحب بولے!
”معذرت کی کوئی ضرورت نہیں.... میں بھی یہی سمجھ کر رکا تھا!“
تو بھائی لوگو!.... امید ہے اس طویل وضاحت کے بعد رن تھرو حکومتیں اور سیاسی ٹیکسیاں ہماری کسی بات کا غلط مطلب نہیں اخذ کریں گی.... ٹیکسیوں کا ذکر بعد میں پہلے کچھ ثنا خوانی اپنی حکومتوں کی!
گزشتہ پانچ سال کے دوران ملک میں حکومتیں صرف دو ہی رہی ہیں، اسلام آباد میں آصف زرداری کی اور پنجاب میں شہباز شریف کی، سندھ کی حکومت تو معذور، بلوچستان کی مفرور اور خیبرپختونخوا کی حکومت مجبور تھی، اسلام آباد والوں نے سٹیل مل چھوڑی نہ پی آئی اے، عوام کو روٹی دی نہ مکان! کاروبار حکومت صرف دو امور کے گرد ہی گھومتا رہا، لین دین اور عدالتی فیصلوں کی توہین، ایسے ایسے عادلانہ اور منصفانہ فیصلے کئے کہ عقل دنگ رہ جائے۔ ایک دوست بتا رہے تھے کہ دوستوں کے ذریعے سٹیل مل کی ایسی کی تیسی پھروائی، جب سٹیل مل دیوالیہ ہونے کو پہنچ گئی تو نیشنل بینک آف پاکستان کی گردن پر انگوٹھا رکھ کر تین ارب روپے کا بلاسود قرضہ دلوا دیا تاکہ پھر سے کچھ دوستوں کو نوازا جا سکے! اب پی آئی اے کے ساتھ بھی یہی کیا جا رہا ہے۔ 100 ارب کے Bailout پلان کے تحت قرضہ تو نیشنل بینک دے گا، گارنٹیاں حکومت کی ہوں گی۔ ایک دن خبر آئے گی کہ نیشنل بینک کا بھی ”بولو رام“ ہو گیا!
زرداری پیپلز پارٹی کی داستان دست درازی اتنی طویل ہے کہ سناتے سناتے برس بیت جائیں اور ختم نہ ہو!
مگر پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے شہباز شریف کی حکومت بھی لطیفے سے کم نہیں! پہلے تین سال انہوں نے زرداری کو گالیاں دینے اور سابق وزیراعلیٰ کے کئے گئے کام اکھاڑنے میں گزار دیئے .... اربوں روپے سستی روٹی میں جھونک دیئے، اس سکیم کا ایک ”منا“ سا واقعہ ایک دوست سے سنا تو عقل دنگ رہ گئی!دوست نے بتایا کہ سستی روٹی سکیم کے تحت تنوروں کو سستا آٹا فراہم کیا جاتا تھا، ایک ”واﺅچر“ منظوری کے لئے آیا، جس کے مطابق ایک تنور کو ایک دن میں 285 بوری آٹا فراہم کیا تھا۔ جس نے واﺅچر کی منظوری دینا تھی اس نے سر پکڑ لیا کہ 50 کلو گرام کی ایک بوری ہوتی ہے، اس حساب سے ایک دن میں ایک تنور میں ایک لاکھ 42ہزار 500 کلو گرام آٹے کی روٹیاں کیسے پک گئیں، پھر اس پر ایک ستم اور بھی تھا.... جس ستم ظریف نے یہ بل پیسوں کی وصولی کے لئے بھجوایا تھا، اس نے باربرداری (Transportation) کے اخراجات بھی شامل کئے تھے۔ یہاں وہ عقل کا اندھا مار کھا گیا، اس نے لکھا تھا کہ یہ 285 بوری آٹا اس نے موٹر سائیکل پر تنور پر پہنچایا تھا، اس لئے چند لٹر پٹرول کے پیسے دیئے جائیں!!پھر ہمارے ”ذہین فطین“ وزیراعلیٰ، عمران خاں سے متاثر ہو گئے کہ وہ نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے، انہوں نے حکومتی خزانے کو حلوائی کی دکان سمجھ کر عوام کی فاتحہ خوانی شروع کر دی۔ اربوں روپے (ایک اطلاع کے مطابق اب تک 8ارب) لیپ ٹاپ کمپیوٹر سکیم میں جھونک دیئے! پورے پنجاب میں لاکھوں بچے سکول نہیں جا پاتے، 8دانش سکول قائم کرکے سمجھا کہ انہوں نے پورے پنجاب کو ”پڑھا لکھا“ بنا دیا ہے۔ ان دانش سکولوں میں ایک بچے کے ماہانہ اخراجات 25 ہزار روپے ہیں جبکہ ایک عام پرائمری سکول کا بجٹ جس میں 50 سے سو تک بچے پڑھتے ہیں، کم و بیش دانش سکول کے ایک بچے کے برابر ہے! پورا پنجاب صحت، تعلیم اور آمد و رفت کی سہولت سے محروم ہے، انہوں نے لاہور میں 30 ارب سے میٹرو بس شروع کرکے اسے پیرس بنانے کے دعوے کر دیئے!ان دونوں حکومتوں نے جس کامیابی کے ساتھ جھنڈے گاڑتے ہوئے اپنے پانچ پانچ سال پورے کئے ہیں، انہیں دیکھ کر انارکلی بازار لاہور میں ایک یخنی بیچنے والا یاد آتا ہے!کسی زمانے میں انارکلی میں ایک شخص ریڑھی پر یخنی بیچا کرتا تھا، دور دور تک اس کی دھوم تھی۔ لوگ جوق در جوق آتے اور یخنی کا لطف اٹھاتے! دکاندار صبح کو ایک مرغی کی نعش اپنے بڑے سے برتن کے اوپر لٹکا دیتا، کبھی کبھی اس نعش کو ابلتے پانی میں غسل بھی دے دیتا، بہرحال لوگ بہت شوق سے یخنی پیتے! ایک حاسد نے دیکھا کہ یخنی والا کرتا تو کچھ ہے نہیں، ایک ہی مرغی لٹکائے رکھتا ہے پھر بھی اتنا کامیاب .... اسے شوق چرایا کہ کیوں نہ یہی کاروبار کیا جائے! اس نے تھوڑے فاصلے پر ریڑھی لگا لی، ایک نہیں نصف درجن مرغیاں لایا، انہیں جوش دے کر، مصالحے ڈال کر مزے کی یخنی بنائی اور گاہکوں کا انتظار کرنے لگا۔ پورا دن گزر گیا، مگر کسی نے اس کی ریڑھی کا رخ نہ کیا، لوگ ایک مرغی والے سے ہی یخنی پیتے رہے!کئی دن گزر گئے، کسی گاہک نے نئے یخنی فروش کے ٹھیلے کا رخ نہ کیا، آخر تنگ آ کر اس نے کاروبار سمیٹنے کا فیصلہ کیا، ٹھیلہ بیچا برتن گھر لے گیا۔ پھر وہ پرانے یخنی فروش کے پاس گیا اور کہنے لگا!”استاد میں یخنی بیچنے سے باز آیا، میری توبہ!.... مگر یہ تو بتاﺅ لوگ تمہاری یخنی کیوں پیتے ہیں؟ تمہاری کامیابی کا راز کیا ہے؟“یخنی فروش نے ناکام دکاندار کو پہلے تو بہت دھتکارا، پھر اس کی منت خوشامد سے پسیج گیا اور بولا!”کامیابی کا یہ پہلا گر ہے، اسے ساری عمر یاد رکھنا کہ یخنی کا مرغی سے کوئی تعلق نہیں! دوسرا گر یہ ہے کہ کامیابی کا یخنی اور مرغی، دونوں سے کوئی تعلق نہیں!تو اے دل والو!.... یخنی اور مرغی کی طرح، ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ عوام اور سیاست کا آپس میں کوئی تعلق نہیں.... پھر پانچ سال حکومت کرنے کا عوام اور سیاست، دونوں سے کوئی تعلق نہیں! اصغر خاں جیسے سیاست کرتے عمر گزار دیتے ہیں مگر انہیں سوائے دھکے کھانے کے، کچھ نہیں ملا.... مگر کچھ لوگوں کی رن تھرو حکومتیں اور سیاسی ٹیکسیاں فراٹے بھرتی پھر رہی ہیں!
ایسا کیوں ہے؟
یہ داستان پھر کبھی سہی!