• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: میں نے دو ٹی وی ڈراموں میں سنا کہ ڈرامے میں ایک لڑکا اور لڑکی شوہر اور بیوی کاکردار ادا کررہے ہیں، شوہر نے بیوی کو طلاق دے دی ، جس سے بیوی پریشان ہوئی ، تو اسے کہا گیا : تم حمل سے ہو اور حمل کی حالت میں طلاق واقع نہیں ہوتی ، اس سے بہت سے لوگ گمراہ ہوسکتے ہیں ، اس لیے دینی رہنمائی فرمائیں۔

جواب: ہم بھی کہتے ہیں حالتِ حمل میں عورت کو طلاق نہیں دینی چاہیے ، یہ سنگ دلی اوربے رحمی ہے ۔ لیکن بدقسمتی سے اگر کوئی شخص اپنی حاملہ بیوی کو طلاق دے دیتا ہے ، تو طلاق واقع ہوجاتی ہے ، اس میں مذہبی مسالک و مکاتبِ فکر میں کوئی اختلاف نہیں ہے ، یہ مسئلہ مُتّفق علیہ ہے ، لیکن مقامِ افسوس ہے کہ آج کل ٹی وی وفلمی اداکار ، اسکرپٹ رائٹر ، ڈائرکٹر اور پروڈیوسر دینی مسائل پر فتوے جاری کرتے ہیں اور اُن کے دل میں ذرّہ بھر بھی اللہ کاخوف پیدا نہیں ہوتا ۔ 

اصولی طورپر ہر ٹی وی پروگرام کے لیے Content ڈائرکٹر ہونا چاہیے تاکہ وہ ڈرامے میں بولے جانے والے یا لکھے گئے الفاظ کا ذمہ دار قرار پائے کہ کوئی بات دین اور اَخلاقی اَقدار سماجی روایات اور ملک وملّت کے مفاد کے خلاف آن ایر نہ جائے ، کیونکہ آج کل زبان سے نکلے ہوئے الفاظ یا قلم سے لکھے گئے حروف پبلک پراپرٹی بن جاتے ہیں اور اُنہیں واپس لینا عملاً ناممکن ہوجاتا ہے ،سوشل میڈیا پر اس کی ہزاروں مثالیں مل جائیں گی ۔ 

نیز یہ کہ لوگوں میں اتنا حوصلہ بھی نہیں ہوتاکہ غلطی کو تسلیم کریں، اُس پر اللہ تعالیٰ سے توبہ کریں اور لوگوں سے معافی مانگیں ، بلکہ اس کے برعکس یہ لوگ ناقابلِ قبول تاویلات وتوجیہات کرنے لگ جاتے ہیں ، جو ’’عذرِ گناہ بدتر ازگناہ ‘‘ کا مصداق ہوتی ہیں ۔

شرعی مسائل سے ناواقف لوگوں میں یہ مشہور ہے کہ حمل کی حالت میں طلاق واقع نہیں ہوتی ،لیکن درست یہ ہے کہ حالتِ حمل میں بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے اور طلاق یافتہ حاملہ عورت کی عدّت وضعِ حمل تک رہتی ہے۔ترجمہ:’’اورحاملہ عورتوں کی عدّت (کی انتہا) ان کا وضع حمل ہے،(سورۃ الطلاق:4)‘‘۔ وضعِ حمل سے مراد بچے کا پیداہونا ، خواہ کم مدت میں ہو یا زیادہ ۔حدیث پاک میں ہے :ترجمہ:’’ مسوربن مَخرمہؓ بیان کرتے ہیں: سُبیعہ اسلمیہ کے ہاں اُن کے شوہر کی وفات کے بعد بچے کی ولادت ہوئی ، تو وہ نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپ ﷺ سے کسی دوسرے شخص سے نکاح کرنے کی اجازت مانگی تو آپ ﷺ نے اُنہیں اجازت دیدی اور اُنہوں نے نکاح کرلیا ، (صحیح بخاری)‘‘۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : اورحاملہ عورتوں کی عدت (کی انتہا) اُن کا وضع ِحمل ہے، (سورۃ الطلاق:4)، کے سبب ،(البحرا لرائق ،جلد4،ص:145)‘‘۔میڈیا کے لوگوں کو چاہیے کہ اس طرح کے حساس موضوعات پر کلام کرنے سے پہلے شرعی مسائل سے واقفیت حاصل کرلیا کریں،تاکہ اُن کے ذریعے کوئی غلط بات لوگوں تک نہ پہنچے ،یہ حلال وحرام کے مسائل ہیں اوران کا مدار کتاب وسنّت اور شریعت مُطہرہ پر ہے ۔

تازہ ترین