• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اتفاقات زندگی کا حصہ ہوتے ہیں۔ ہماری تاریخ میں دلچسپ اور فکرانگیز اتفاقات کی کمی نہیں۔ دسمبر کا مہینہ قائداعظم کا مہینہ ہے لیکن اس مہینے میں مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو کر بنگلہ دیش بنا، چنانچہ ایک طرف قائداعظم کی پیدائش کو منایا جاتا ہے، ان کے کارناموں، شخصیت، کردار اور بصیرت کا ذکر ہوتا ہے تو ساتھ ہی ساتھ مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر آنسو بہائے جاتے ہیں۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے حوالے سے احتساب کرتے ہوئے بےشمار تھیوریاں، مفروضے اور کہانیاں بیان کی جاتی ہیں جن کا علیحدگی سے قبل ہمیں علم نہیں تھا یا یاد نہیں تھیں۔ واویلا بعداز مرگ ہمارا وتیرہ ہے۔ اب اس میں ایک اور فیکٹر بھی شامل ہو گیا ہے اور وہ ہے مولانا ابو الکلام آزاد سے منسوب پیشن گوئی کہ مشرقی پاکستان، پاکستان سے 25برسوں میں الگ ہو جائے گا۔ اس تفصیل میں گئے بغیر کہ یہ پیش گوئی اصلی ہے یا نقلی میرا پوچھنے کو جی چاہتا ہے کہ مولانا الکلام آزاد کو ہندوستان میں مسلمانوں کے مستقبل، آر ایس ایس اور ہندو توا جیسی مسلم کش تحریکوں اور مودی جیسے مسلمان دشمن لیڈر کے برسر اقتدار آنے کا اندازہ کیوں نہ ہوا؟ کیا اُن کی مستقبل میں جھانکنے کی صلاحیت صرف پاکستان تک محدود تھی؟ اتفاقات کا ذکر کرتے ہیں تو یہ بھی تاریخ کا ایک اتفاق ہے کہ اگست کے مہینے میں پاکستان معرضِ وجود میں آیا اور اسی مہینے میں بنگلہ دیش کے بابائے قوم شیخ مجیب الرحمن کو مع خاندان بےدردی سے اپنے ہی گھر کی سیڑھیوں پر قتل کر دیا گیا اور اُن کی لاش بےگوروکفن پڑی عبرت کا سامان بنی رہی۔ تاریخ کے اوراق پر ’’نظرثانی‘‘ ڈالتا ہوں تو تحریک آزادی کے فیصلہ کن مرحلے پر متحدہ بنگال کی تحریک نگاہوں کے سامنے گھومنے لگتی ہے۔ اگرچہ اپریل 1946کے مسلم لیگ کنونشن میں ایک پاکستان کی قرارداد خود سہروردی نے پیش کی تھی اور پاکستان کے حصول کے لئے خون کا آخری قطرہ تک بہانے کے عزم کا اظہار کیا تھا لیکن یہ سہروردی ہی تھے جنہوں نے تقسیم ہند کے آخری مراحل میں آزاد بنگال کی تحریک چلائی۔ سہروردی کو کئی بنگالی لیڈروں کی حمایت حاصل تھی اور وہ چاہتے تھے کہ بنگال تقسیم نہ ہو بلکہ متحد رہے اور آزاد بنگال ایک علیحدہ ملک کے طور پر معرضِ وجود میں آئے لارڈ مائونٹ بیٹن بھی سہروردی کا حمایتی تھا چنانچہ اس نے تقسیم کے منصوبے کے حوالے سے دو تقاریر تیار کی تھیں۔ اگر مسلم لیگ اور کانگریس آزاد بنگال پر راضی ہو جاتیں تو تین ملکوں (ہندوستان، پاکستان، بنگال) والی تقریر کرنا تھی اور اگر سہروردی کی کوششیں ناکام ہو جاتیں تو وہی تقریر کرنا تھی جو اس نے جون 1947میں کی۔ تاریخ گواہ ہے کہ قائداعظم سہروردی کی آزاد بنگال کی تجویز پر راضی ہو گئے تھے لیکن کانگریسی قیادت نے اسے مسترد کر دیا۔ اول تو اس لئے کہ بنگال میں 57فیصد مسلمان تھے جس کا مطلب ایک اور مسلمان اکثریتی ملک کا قیام تھا۔ دوم بقول کانگریسی رہنما پیٹل یہ قائداعظم کی سارا بنگال حاصل کرنے کی چال تھی۔ قائداعظم نے یہ بھی واضح کر دیا تھا کہ آزاد بنگال کی صورت میں پنجاب تقسیم نہیں ہوگا اور پورا پنجاب پاکستان کا حصہ بنے گا۔ یہاں تک لکھ چکا ہوں تو ایک سوال ذہن میں ابھرتا ہے۔ وہ یہ کہ ہندوستان کی تقسیم دو قومی نظریے کی بنا پر کی جا رہی تھی۔ سہروردی کا مقدمہ یہ تھا کہ آزاد بنگال کا قیام قرارداد لاہور کے عین مطابق تھا جس میں خود مختار آزاد مسلم اکثریتی ریاستوں کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ سہروردی کی آزاد بنگال کی تحریک اگر کامیاب ہو جاتی تو برصغیر ہندوستان کو دو قومی نظریے کی بنیاد پر تین حصوں میں تقسیم کیا جانا تھا۔ (1)ہندوستان (2)پاکستان (3)بنگال۔ کیا اِس صورت میں دو قومی نظریہ ختم ہو جاتا؟ ہر گز نہیں۔ تو پھر مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے دو قومی نظریہ کیسے خلیج بنگال میں غرق ہوا؟ کیا مشرقی پاکستان کے لیڈروں اور عوامی لیگ نے شیخ مجیب الرحمٰن کی رہنمائی میں اس لئے علیحدگی کا مطالبہ کیا تھا کہ دو قومی نظریہ کا وجود ختم ہو چکا ہے؟ نہیں ہر گز نہیں۔ شیخ مجیب الرحمٰن کے چھ نکات جو علیحدگی کی بنیاد بنے وہ توسارے کے سارے اقتصادی اور سیاسی محرومیوں کا نوحہ تھے۔ شیخ مجیب الرحمٰن کا مغربی پاکستان کے خلاف سارا مقدمہ ہی یہ تھا کہ مشرقی پاکستان کو سیاسی اور اقتصادی محرومیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اسی منشور پر اس نے الیکشن لڑا اور انہی ناانصافیوں کو مبالغہ آمیز رنگ دے کر الیکشن جیتا۔ عوامی لیگ کی ساری تحریک سیاسی اور اقتصادی تھی نہ کہ نظریاتی تو پھر دو قومی نظریہ کیسے ناکام ہوا؟ دو قومی نظریے نے پاکستان بنایا لیکن زمینی حقائق اور محرومیوں کے احساس نے نظریے کو پسِ پشت دھکیل دیا کیونکہ بھوکے کا پیٹ صرف نظریے سے نہیں بھرا جا سکتا۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ پاکستان ٹوٹنے کا مطلب دو قومی نظریے کی موت تھی۔ نظریہ کبھی نہیں مرتا، آئیڈلوجی ایک فکری تحرک اور ذہن کا روشن محور ہوتی ہے۔ دو قومی نظریہ پاکستان کے قیام سے پہلے بھی موجود اور متحرک تھا اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے باوجود قائم و دائم ہے۔ قائداعظم کے الفاظ میں پاکستان اسی روز قائم ہو گیا تھا جس دن ہندوستان کی سرزمین پر غیر مسلمان نے اسلام قبول کیا۔ 8مارچ 1944کو علی گڑھ میں خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے کہا تھا۔

''....Pakistan started the moment the first non muslim was converted to Islam in India''....He was asked as to who was the author of Pakistan, Jinnah's reply was ''Every Mussalman''.

یقین رکھیئے اگر دو قومی نظریہ زندہ نہ ہوتا تو مودی اور مودی حکومت کو شہریت قانون پاس کروانے کی ہرگز ضرورت محسوس نہ ہوتی۔

تازہ ترین