• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک ہوتا ہے غرور اور ایک ہوتا ہے فخر۔ غرور پھونک بھرے غبارے کی طرح ہوتا ہے جبکہ فخرکی بنیادیں اور اساسیں اس زمین سے وابستہ ہوتی ہیں، اس مٹی سے منسلک ہوتی ہیں جہاں خاندان کی جڑیں ہوتی ہیں۔ یہاں امیر و غریب کی تخصیص نہیں ہوتی۔ فرخ یار، نوجوان شاعر، ملک اللہ یار سنجیدہ سیاست دان کے خاندان اور باپ سعد اللہ خاں کاخلف ہونے کو، زندگی کی بنیاد کو قابلِ عزت سمجھنے کے علاوہ اپنے خاندان کی روایتوں کو کبھی مٹی کے حوالے سے کبھی محبت کبھی حرف کبھی حسن کو رشتوں سے مربوط کرتے ہوئے نظم میں گویا ہوتا ہے۔ باپ محفوظ کرنا/ جہاں رنج کو داخلے کی اجازت نہیں/ باپ تلسی کے پتوں کی صورت ہمیشہ تروتازہ سرسبز مہکا ہوا۔ یہ طویل نظم کاریز کی چند لائنیں میں نے لکھی ہیں، ہمارے بہت سے پڑھنے والوں کو کاریز کا مطلب شاید معلوم نہ ہو۔ بلوچستان کی بے آب و گیاہ زمین کو سیراب کرنے کے لئے بارش کے پانی کو نالوں کے ذریعے محفوظ کرکے، زمین کی کاشت کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ اب ہر چند نت نئے آبپاشی کے ذرائع اختیارکئے جاتے ہیں۔ پھر بھی کاریز کے پانی میں آم ٹھنڈے کرکے کھانا، بلوچ نوجوانوں کا محبوب مشغلہ ہے۔ فرخ کاریز سے تعلقات کو درجہ بدرجہ محفوظ کی طمانیت کو زندگی کی ’’پھوھڑیوں‘‘ (سیڑھیوں) سے بیان تک لاکر کہتا ہے ’’باپ میرے لئے حسن بھی عشق بھی، درد کی چاپ، معنی کا پھیلائو بھی‘‘۔ وہ اپنے دادا کے سراپے کو بیان کرتے ہوئے گویا ہوتا ہے کہ ’’میرے دادا ملک لال خاں، سرخ رو، نیل گوں وسعتوں میں دھڑکتی ہوئی صبح کے راز داں۔‘‘

زندگی کے سفر کو چار سیڑھیوں میں تقسیم کرتے ہوئے، جب موت کا حوالہ دیتاہے تو بیان کرتا ہے۔ ’’موت نہروں کے پانی سے دھوئے گئے بال و پر کا فسوں‘‘ پھر عشق کے لئے کہتا ہے ’’عشق اقرار و انکار سے ماورا، حکم بھی، وصف بھی‘‘ اور پھر حسن کے لئے بیانیہ ہے۔ ’’حسن مضمون ہستی کا آغاز، جیسے براق اڑتے ہیں افلاک سے اور افلاک تک۔‘‘طویل نظمیں لکھنا، پتہ پانی کرنے کے مترادف ہے، سعید احمد نے بھی زندگی کی گھڑیوں میں بانٹ کر نظام کا تانا بانا بُنا ہے۔ فرخ کہیں فلسفے کی گنجلک میں خود کو محسوس نہیں کرتا، حتیٰ کہ نظم کو اختتام کی جانب لاتے ہوئے کہتا ہے ’’اس زمیں کی کفالت کو سورج ابھی سرخ ہے۔‘‘ زندگی کو بھیدوں بھری مسکراہٹ اور جیون کا آغاز، جوکہ دکھن بھی ہے جس سے بچ کے نکل جانا دشوار تھا۔ مگر فرخ نے اس سر جہان بانی میں، سارے جانے اور انجانے خدوخال کو چھانٹا ہے۔ میرے عزیز دوست اور شاعر، ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ کر اپنی کلیات مرتب کرنے لگے ہیں۔ کلیات کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ شاعر کے ذہنی سفر اور جذباتی پیچ و خم کو سمجھنے میں آسانی ہوجاتی ہے۔ اختر شمار بےچین روح جس نے پنجابی میں لکھنا شروع کیا تو یکے بعد دیگرے دو مجموعوں میں خود کو سمیٹا نہیں بکھیرا۔ نثری تصانیف میں پنجابی میں کہانیاں اور مضمون بھی لکھے۔ اس طرح اردو میں 1984سے اب تک پانچ شعری مجموعے سامنے لایا، حرف کو حقیقت لباس پہنایا۔ دریا پر کیسے کیسے وقت آتے ہیں اور انسان جوانی میں لامکاں کو تلا ش کرتا کرتا یہ بھی کہہ دیتا ہے کہ ’’ہر شخص چاہتا ہے جوانی ختم نہ ہو۔‘‘ اختر شمار کی کلیات، اسکے وکھرے انداز کو یہ لہجہ ملا ’’مجھ کو سب سے مختلف ہونا پڑا‘‘۔کوئٹہ سے عصمت درّانی کی کلیات بھی انکے ماہر امراض اطفال ہونےکے تجربے کو زندگی کے ورق الٹتے ہوئے چار مجموعوں میں یوں ہے کہ ’’شعر کہنا میرا اختیار نہیں، مجبوری ہے، کیونکہ میں جیتے جی راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہونا چاہتا ہوں‘‘۔ ’’سکون بیچ کے دولت نہیں کمانی ہے‘‘۔ عصمت نے نظموں میں اظہاریے کو وسعت دی ہے۔ ابوالحسن کی کہانی سے لیکر بے سمتی کے نوحے تک ہمارے اردگرد مصنوعیت کی لاحاصلی کو سمجھ جاتا ہے۔ پرجینا تو اسی ملک میں ہے۔ اب ذرا تازہ نثری کتابوں کی گود میں بیٹھ کر سردیوں کے اس موسم میں اصغر ندیم سید کے ناول کو پڑھتے جائیں تو ایک کردار سارے قصوں اور سارے قدیم و جدید کہانیوں کو ایسے بیان کرتا ہے کہ ملتان کی حویلیاں، بازار حسن اور ان میں رہنے والےکرداروں کو زندہ سمجھ کے بیان کرتا ہے۔ کبھی لکھنؤ چلا جاتا ہے اور کبھی گورنمنٹ کالج لاہور کی پرانی تاریخ جو اب تک کسی نے لکھی نہیں۔ وہ بزرگ بیان کرتا جاتا ہے۔ اصغر نے کہیں خود کو نمایاں کرنے کی کوشش نہیں کی۔ یہ طلسم ہوش ربا ہے، جسکے کردار جانے پہچانے ہیں۔

طاہرہ اقبال نے اب قلم کو بھاگنے پر مجبور کیا ہے۔ وہ بھی پوٹھوار کی زمین اور روایت کو اختر رضا سلیمی اور چہال کی طرح تفصیل سے، اپنے پوٹھواری لہجے اور تاریخ کو ناول کا ماحول عطا کرتی ہے۔ اسکے پہلے ناول ’’نیلی بار‘‘ میں پنجاب کے اس علاقے کی اور کرداروں کی زبان کو پوٹھواری میں بیان کرنے کے بعد اشعارکا اردو ترجمہ بھی لکھتی ہے۔ یہی اسکا اسلوب اسکا طرز تحریر ہے جو کہانیوں اور ناول میں بڑے دلچسپ انداز میں ظاہر ہوتا ہے۔ معین الدین قریشی بہت ناراض ہیں کہ میں نے انکی ناقابلِ تقلید کتب کا حوالہ نہیں دیا۔ دراصل میں تو اکثر شاعری یا پھر سماجی موضوعات پر جی لگا کر لکھتی ہوں۔ انکی تحقیقی کتابوں کی ماہیت کو سمجھنے کے لئے اپنے اندر جھانکنا پڑتا ہے۔ پھر انکے مصرعہ ترکی سمجھ آتی ہے۔

جلیل عالی کی نعتوں کا مجموعہ بڑا متبرک ہے۔ نعت لکھنے کیلئے صرف وصف شعر گوئی نہیں۔ تہہ سے اچھلنے والے جذب کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ ویسے ہر لکھنے والے میں نعت کےمضراب کو چھیڑنا آسان کام نہیں۔ حفیظ تائب اور مظفر وارثی نے بہت عمدہ نعتیں لکھیں۔ اب جلیل عالی اور خورشید رضوی کی بالید، اصطلاحات نعت لکھنے کا حوصلہ دلاتی ہے۔ بہت دنوں سے حمید شاہد نے ایک کتاب دی تھی رخشندہ کوکب کی کہانیوں کا مجموعہ وصل میں مرگِ آرزو۔ غیرممالک جانے والی خاص طورپر خواتین کیسے آبرومندی سے زندگی گزارتی ہیں۔ اسکے علاوہ وہ رومانوی افسانے جو ابتدائی تخلیقات کو مہمیز دیتے ہیں۔

تازہ ترین