• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب بھی ملک میں انتخابات کی سرگوشیاں ہونے لگتی ہیں تب پیر سائیوں کے ہاں لگی ہوئی رونقوں کو چارچاند لگ جاتے ہیں بلکہ آٹھ چاند لگ جاتے ہیں۔ انتخابات کی آمد آمد کا اندازہ مجھے تب ہوا جب میں نے ممتاز جادوگر کو برسوں بعد دیکھا۔ کیسے، کب اور کہاں میں نے ممتاز جادوگر کو دیکھا یہ سب باتیں میں آپ کو آج کے قصے میں سناﺅں گا لیکن سب سے پہلے میں اپنے بزرگ دوست بچو بھائی کی جائز شکایت دور کروں گا۔ ان کا قول آپ تک پہچاﺅں گا۔ بچو بھائی کو شکایت ہے کہ ان کے اقوال میں آپ تک نہیں پہنچاتا بلکہ ان کے اقوال کو توڑ مروڑ کر اپنے قصے، اپنی کہانیوں میں شامل کر دیتا ہوں لہٰذا میں نے طے کیا ہے کہ آئندہ بچو بھائی کے اقوال جوں کے توں آپ کو سناﺅں گا اس کے بعد اپنی کتھا بیان کروں گا۔ تو سب سے پہلے بچو بھائی کا قول سنئے۔
بچو بھائی کہتے ہیں ”جیسے طرح طرح کے رنگ روغن لگانے کے باوجود کالا کوّا ہنس کی طرح گورا چٹا اور مورکی طرح دلفریب نہیں بن سکتا، عین اسی طرح ایک ڈکٹیٹر اعلیٰ عدالتوں سے اپنے حق میں فیصلے کرانے اور من پسند قوانین بنانے کے باوجود صدر نہیں بن سکتا۔ دس بارہ پندرہ برس تک بندوق کی نالی پر راج کرنے کے باوجود ایک ڈکٹیٹر آخر تک ڈکٹیٹر ہی رہتا ہے۔ وہ کسی بھی منطق کے مطابق صدر یا پریذیڈنٹ کہلوانے کا حقدار نہیں بن سکتا“۔
بچو بھائی کی امانت میں نے آپ تک پہنچا دی ہے اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ اپنی تحریروں میں ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاءالحق اور پرویز مشرف کو آپ ڈکٹیٹر لکھیں یا صدر۔ نظریہ ¿ ضرورت کے تحت کوئی عدالت کوّے کو ہنس ہونے کا سرٹیفکیٹ نہیں دے سکتی۔
بچو بھائی کی بات ختم۔ اب آپ آنے والے انتخابات کی آندھی سے پہلے پیروں، نجومیوں اور جوتشیوں کے مشاغل کے قصے سن لیجئے۔ یہ قصے میں نے اپنے بل بوتے پر حاصل کئے ہیں کسی ادارے نے مجھے مالی امداد دے کر یہ قصے کہانیاں جمع کرنے کے لئے کہیں نہیں بھیجا تھا۔ میں اپنی تاریخی سائیکل پر سوار ہو کر گھر سے نکل پڑا تھا۔ میں اپنی سائیکل کو تاریخی سائیکل اس لئے کہتا ہوں کہ یہ سائیکل میں نے قسطوں پر تب خریدی تھی جب کراچی میونسپل کی طرف سے سائیکلوں کو رجسٹریشن کے بعد پیتل کی چھوٹی سی پلیٹ پر نمبر الاٹ ہوتا تھا اور وہ نمبر پچھلے پہیے کے اوپر مڈگارڈ پر لگایا جاتا تھا۔ تب سائیکلوں کے ساتھ ڈائینمو آتے تھے اور ڈائینمو کی مدد سے رات کے وقت ہینڈل سے منسلک بتی جلانی پڑتی تھی۔ اگر ڈائینمو خراب ہو جائے تو رات کے وقت سائیکل چلاتے ہوئے آپ کو ٹارچ جلانا پڑتی تھی۔ اگر ٹارچ نہ ہو تو کچھ لوگ ہینڈل کے ساتھ لالٹین لٹکا کر رات کے وقت سائیکل چلاتے تھے۔ یہ اس دور کی کتھا نہیں ہے جب موہن جو دڑو (داڑو نہیں) آباد تھا اور وسیع ترین ایمپائر آف دی انڈس کا دارالحکومت تھا یہ کتھا بٹوارے یعنی تقسیم ہند کے ادھر ادھر کی ہے۔ تب کراچی میں جانوروں کے لئے سایہ دار پانی پینے کے حوض ہوتے تھے میرے کہنے کا مطلب ہے کہ میری تاریخی سائیکل ساٹھ ستّر برس پرانی ہے۔ اگر ہندوستان کی حکومت مجھے اجازت دے تو میں کراچی سے کلکتہ یعنی کولکٹا تک سائیکل پر سوار ہو کر اپنی آشا کی تلاش میں نکل سکتا ہوں۔ میرا نام امن ہے سائیکل کیا میں آشا کی کھوج میں ہندوستان کے شہروں، گلی کوچوں میں پیدل بھٹک سکتا ہوں۔ پیروں میں چھالے پڑ گئے تو میں امن، اپنی آشا کے لئے کہنیوں اورگھٹنوں کے بل خود کوگھسیٹتے ہوئے ہمالیہ کی چوٹیوں سے لے کر مدراس یعنی چنائی اور کیرالہ کے سمندری کناروں کی مسافت طے کر سکتا ہوں۔ وہ محبت ہی کیا جس میں رکاوٹیں آڑے نہ آئیں! پاکستان اور ہندوستان کی حکومتیں جانیں، ان کی چپقلشیں جانیں۔ ہم عام آدمی جانیں، ہماری محبتیں جانیں! پاسپورٹ اور ویزا کی آزمائشیں کتنی ہی کڑی کیوں نہ ہوں، میری یعنی امن کی اپنی آشا کے لئے محبت کم نہیں ہو سکتی۔ وہ عشق ہی کیا جو سرچڑھ کر نہ بولے! میرے کہنے کا مطلب ہے کہ آنے والے انتخابات کے حوالے سے پیروں، جوتشیوں اور نجومیوں کے ہاں سیاستدانوں کی گہما گہمی کا آنکھوں دیکھا حال قلم بند کرنے کےلئے مجھے کسی نے اسپانسر نہیں کیا تھا۔ میں اپنی تاریخی سائیکل پر سوار ہو کر گھر سے نکل پڑا تھا۔ ترقی یافتہ پاکستان میں اب سائیکلیں رجسٹر نہیں ہوتیں، سائیکلوں کو نمبر الاٹ نہیں ہوتے، رات کے وقت سائیکل کےلئے لائٹ کا ہونا ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ میری سائیکل پر لگا ہوا رجسٹرڈ نمبر زمانہ جہالت کی نشاندہی کرتا ہے۔ اب تو بڑی بڑی گاڑیوں پر بھی نمبر دکھائی نہیں دیتے۔
پیروں، جوتشیوں اور نجومیوں کی مصروفیات کے ایک نہیں، انیک قصے ہیں میرے پاس۔ انتخابات ہونے تک گاہے گاہے یہ قصے میں آپ کو سناتا رہوں گا۔ ان قصوں کا آغاز میں ممتاز جادوگر کے قصے سے کرنا چاہتا ہوں، وہ اس لئے کہ ممتاز جادوگر پیر سائیں نہیں ہے، وہ نجومی یا جوتشی بھی نہیں ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک وہ ایک نجی انٹرنیشنل کمپنی میں بڑے عہدے پر مامور تھا۔ میں آپ کو یہ بھی بتا دوں کہ ممتاز اس کا فرضی نام ہے۔ اس کا اصلی نام بتانا میں مناسب نہیں سمجھتا۔ انٹرنیشنل کمپنی سے وہ ریٹائر ہو چکا ہے لیکن اپنے من پسند مشغلے سے نہیں۔ وہی مشغلہ ممتاز جادوگر کے لئے وجہ شہرت ہے۔ شروع شروع میں اس نے اپنے پڑوسیوں اور دفتر میں اپنے ساتھی ملازموں کو مشق ستم بنایا۔ ان کے ہاتھ دیکھتا، ان کے زائچے بناتا، انہیں آنے والے خطروں سے آگاہ کرتا۔ کسی کام میں کامیابی یا ناکامی کے بارے میں انہیں خبردار کرتا۔ بتائی ہوئی چند پیشگوئیاں درست ثابت ہونے کے بعد اس کی شہرت کو وسعت ملی۔ وہی شہرت دفتر میں اس کی غیرمعمولی ترقی کا سبب بنی۔ کمپنی کے بڑے بڑے افسر اپنی نجی زندگی سے لے کر کمپنی کے نئے منصوبوں کے بارے میں ممتاز جادوگر سے مشورہ کرتے تھے اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب ممتاز جادوگر کا نام سرکاری اور غیرسرکاری افسران کے دفتروں اور کوٹھیوں کے ساتھ ساتھ سیاسی ایوانوں میں گشت کرنے لگا۔ وہ کسی بھی زاویئے سے نجومی یا جوتشی نہیں لگتا۔ ہمیشہ ٹپ ٹاپ، بنا ٹھنا، اچھے لباس میں نظر آتا ہے۔ قد میں مار کھا گیا ہے ذرا سا بھینگا بھی ہے۔ بولتے ہوئے اچانک اس کی زبان لڑکھڑا جاتی ہے۔ اس کا اٹھنا بیٹھنا میرے جیسے ملنگوں سے نہیں ہے۔ سیاستدانوں اور افسران کے علاوہ بزنس مین اور بینکروں سے اس کے گہرے مراسم ہیں۔ بچوں اور بچیوں کی شادی بیاہ کے معاملوں سے لے کر نیب اور دیگر عدالتوں میں ان کے خلاف چلنے والے مقدمات کے بارے میں وہ ممتاز جادوگر سے صلاح مشورے کرتے رہتے ہیں۔
وڈیروں اور سرداروں کی آپس میں چپقلشیں چلتی رہتی ہیں جب سردار ممتاز علی خان بھٹو سندھ کے وزیراعلیٰ تھے تب غلام مصطفی جتوئی کی کوٹھی پر کراچی میں چھاپا پڑا تھا۔ اس وقت غلام مصطفی جتوئی وفاقی وزیر تھے۔ جتوئیوں کے طاقتور قبیلے کے سردار تھے۔ اس واقعے نے مرکزی اور سندھ حکومت کو ہلاکر رکھ دیا تھا۔ کوئی قدم اٹھانے سے پہلے غلام مصطفی جتوئی نے مشورہ کے لئے ممتاز جادوگر کو اپنے پاس بلایا تھا۔ ممتاز جادوگر نے ان کو کیا مشورہ دیا تھا یہ قصہ میں اگلے ہفتے آپ کو سناﺅں گا۔
تازہ ترین