• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انسانیت کی طرف مسلسل بڑھتے ہوئے ہزاروں سال بعد بھی، آج دنیا میں بسنے والے انسانوں کی بھاری اکثریت طرح طرح کے مظالم اور جبر و استبداد کے غلبے سے مغلوب ہے۔ یہ غلبہ انسانی زندگی میں صدا سے موجود ہے اور انسان کی ورطہ ¿ حیرت میں ڈال دینے والی سماجی، سائنسی اور اقتصادی ترقی کے باوجود انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال اور اس پر جسمانی و ذہبی تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔ مظلوموں کی اکثریت میں سے چند بانصیب وہ بھی رہے اور ہیں جو انسانیت کی معراج پر پہنچ کر فرعونیت اور استعماریت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے، دکھوں اور ناانصافیوں سے بھرے انسانی معاشرے میںہر قسم کے ایثار و قربانی کا تاج سر پر سجائے یہ وہ چند صاحبان کردار و عمل اور وسیع النظر شفاف انسان ہیں جو ظلمت میں چمکتے وہ ہیرے ہیں، جو بولتے ہیں۔ ان کے دلائل اور ان کے اٹھائے باہمت سوالوں سے بڑے بڑے ظالموں اور سفاکوں کے دل دہل جاتے ہیں۔
حریت و فکر کے یہ وہ مجاہد ہیں جن کے کردار، شاندار عمل اور جرا ¿ت اظہار سے انسانی زندگی اپنے موجودہ درجے تک شفاف ہوئی، شیطان کو شیطانیت پھیلانے کے کھلے مواقع ملنے کے باوجود اگر انسانی تہذیب آج کی ارتقائی منزل تک پہنچی ہے تو اس کا سہرا ان ہی حق گو کھرے انسانوں کو جاتا ہے، جو شیطانیت کے مقابل ڈٹ گئے، اور کلمہ حق کی مسلسل ادائیگی میں زمانے سے جنونی، سرپھرے، بیوقوف، پاگل اور آئیڈیل کہلائے حالانکہ انسانی زندگی کی اٹل حقیقتوں میں سے سب سے زندہ و جاوید حقیقت یہ ہی ہے کہ دھوکے فریب، ناانصافیوں اور ظلم و استبداد سے مغلوب پیچیدہ انسانی معاشروں میں جو مطلوب ارتقائی عمل جاری و ساری ہوا، اس کی راہیں، ان ہی حق پرستوں کی عالیشان قربانیوں سے نکلیں جو روئے زمین کے سب سے ارفع و اعلیٰ انسان ہیں۔ آزادی اور امن، جمہوریت، انصاف، مساوت، حق خودارادیت، بنیادی انسانی حقوق، عدم تشدد، سرحدوں کا احترام، ان ہی سر پھرے، پاگلوں اور آئیڈیلزم میں مبتلا صاحبان کردار کے ضمیر و شعور سے پھوٹتے ہیں۔ دنیا کے شفاف معاشرے اسی طرح وجود میں آئے، اور عالمی اجتماعی ضمیر کی بیداری سے اقوام متحدہ کے وجود کو دنیا بھر میں اسی لئے تسلیم کیا گیا کہ اس کا چارٹر شیطانیت، آمریت، استعمار و استبدار کے خلاف اقوام کی آزادی، امن، جمہوریت، بنیادی انسانی حقوق اور اقوام کے حق خود ارادیت کے تحفظ اور جغرافیائی سرحدوں کے احترام کا مشترکہ چارٹر تھا، لاقیمت، قیمتی قربانیاں دینے والے راہ حق کے مجاہدوں کا جو قافلہ آج کے شیطانی غلبے سے لڑ بھڑ گیا ہے، اس میںکشمیر کے حریت پسند لیڈر پیش پیش ہیں جو اقوام متحدہ کے چارٹر کی حرمت کو بچانے کے لئے عظیم قربانیاں دینے والے کشمیریوں کے رہنما ہیں۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں سات لاکھ فوج کے ساتھ ان کے حق خود ارادیت کی تحریک کو دبانے میں کوئی بھی تو کسر باقی نہیں چھوڑی پرامن جلوسوں کے شرکاءکے سروں پر اندھا دھند فائرنگ، گینگ ریپ، گھروں میں مسلح فوجیوں کے غیر قانونی داخلے اور خواتین اور نوجوانوں کا اغوائ، اذیت گاہوں میں ایک لاکھ سے زائد نوجوانوں پر نازی طرز کا تشدد حتیٰ کہ پرامن تحریک چلانے والے اور دلیل سے تحریک کو قائم رکھنے والے کشمیری رہنماﺅں پر بے پناہ جسمانی اور ذہنی مظالم۔ ان میں سے ایک رہنما آج کل لاہور میں ہیں۔ اتفاق سے پنجاب یونیورسٹی کا شعبہ سیاسیات اور ساﺅتھ ایشین اسٹڈیز سنٹر مسئلہ کشمیر پر ایک کانفرنس کا اہتمام کر رہا تھا تو شعبے کی سربراہ پروفیسر ڈاکٹر عنبرین جاوید بضد ہو کر نوجوان کشمیری حریت پسند رہنما یاسین ملک کو بھی کانفرنس میں لے آئیں جو اپنے نجی دورے پر آج کل پاکستان میں ہیں اور لاہور آئے ہوئے تھے، ٹی وی پر تو اقوام متحدہ کے چارٹر کے قاتلوں سے لڑنے والے تحریک آزادی کشمیر کے اس نوجوان کی بہت سرگرمیاں دیکھیں، لیکن جو متاثر کن خطاب انہوں نے پنجاب یونیورسٹی میں کیا، وہ پوری عالمی برادری اور بھارتی قوم کے ہر باضمیر شہری کو جھنجھوڑنے والا ہے۔ ان کے اس سوال کا بھارت اور مسئلہ کشمیر پر خاموش مغربی ممالک کے پاس کیا جواب ہے کہ بھارت نے گاندھی کے عدم تشدد کے فلسفے کے حوالے سے مغرب میں اپنی امیج بلڈنگ تو کی، لیکن وہ کشمیر میں جس بربریت کا مظاہرہ کر رہا ہے وہ تو گاندھی کے فلسفے سے متصادم ہے اور بھارت یہ تصادم 65 سال سے کر رہا ہے اور اس پر مغرب خاموش کیوں ہے؟ یاسین ملک کے چہرے پر بھارت کے ظلم و استبداد اور تحریک آزادی کشمیر کے لئے ان کی بے مثال جدوجہد اور انتہائی بلند درجے کے عزم و عمل کی دونوں داستانیں درج ہیں۔
یہ اتنی ہی نمایاں لکھی ہیں، جتنی تاریخ انسانیت میں شیطانیت کے غلبے کے خلاف انسانیت کی مزاحمت، یاسین ملک جن کے 12 سال بھارت کے اذیت گاہوں میں گزرے، کا اندازہ کلام انتہائی علمی اور مدلل تھا۔ انہوں نے ٹھوس دلائل سے ثابت کیا کہ مسئلہ کشمیر سے عالمی طاقتوں اور عالمی برادری کی بے توجہی آج بھی استعماریت کے غلبے کا پتہ دیتی ہے۔ یاسین ملک کا ابلاغ پنجاب یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبہ کے دلوں میں یوں اترا کہ وہ شرمسار ہو گئے کہ ہم اپنی سلامتی اور کشمیریوں کی کتنی عظیم اور کتنی باجواز تحریک سے کتنے غافل ہو گئے ہیں جبکہ کشمیریوں کو حق خودارادیت پر پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں اور پوری قوم کا اتفاق رائے، ہماری قومی یکجہتی کی سب سے نمایاں علامت ہے۔ اپنے چہرے پر بھارتی مظالم اور اپنی قابل تحسین حریت پسندی اور بے مثال ایثار کی داستان سمیٹے یاسین ملک نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے جو سوالات عالمی برادری کے سامنے رکھے اسے پاکستان کی سفارتی اور عوامی سپورٹ ملنا خود پاکستان کی سلامتی کے لئے ناگزیر ہے۔ وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران اور سابق سیکرٹری خارجہ جناب شمشاد احمد خان نے عالمی سفارتی کوششوں کے ریکارڈ سے ثابت کیا کہ بھارت کشمیر میں رائے شماری کرانے کا کتنا پابند ہے۔ جناب شمشاد احمد نے واضح کیا کہ ہمارا کیس اس قدر مضبوط ہے کہ اس سے دستبردار ہونے یا اس میں تبدیلی کا کوئی جواز نہیں، امر واقع یہ ہے کہ بھارت نے اگر سات لاکھ فوج کی مقبوضہ علاقے میں مستقل تعیناتی سے تحریک آزادی کشمیر کے نتائج کو موخر کر دیا ہے تو یاسین ملک اور سید علی گیلانی اور دوسرے سچے کھرے کشمیری قائدین کی قیادت میں جاری تحریک آزادی نے کشمیر کو عالمی مسئلے کے طور پر ختم کرنے کی تمام بھارتی کوششوں کو ناکام کر دیا ہے۔
کشمیر پر کانفرنس کے پس منظر میں ملکی یونیورسٹیوں کی توجہ اس طرح مبذول کرانا بھی ضروری ہے کہ جس طرح ڈاکٹر مجاہد کامران نے پنجاب یونیورسٹی میں بلوچستان، دہشت گردی کی جنگ کی حقیقت، سقوط ڈھاکہ اور مسئلہ کشمیر پر علمی نوعیت کے ڈائیلاگ کرا کر قومی مسائل میں یونیورسٹیوں کی رہنمائی کے کردار کو زندہ کیا ہے وہ بھی قومی مسائل پر علمی بحث و مباحثہ کا سلسلہ شروع کریں تاکہ کم از کم اہل نظر کی قومی امور سے لاتعلقی کا تشویشناک ڈیڈ لاک ختم ہو۔
تازہ ترین