• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر سال دسمبر میں اکثر یورپ برف باری اور سیر و تفریح کے لئے اپنی فیملی کے ہمراہ جاتا رہا ہوں، یہی پروگرام سیٹ ہو چکا تھا کہ ہمارے دوست اشتیاق بیگ قونصل جنرل مراکش اور اختیار بیگ قونصل جنرل یمن جو FPCCIکے نائب صدر بھی ہیں، ان دنوں مراکش میں بریانی فیسٹیول کر رہے تھے، نے بتایا کہ افریقہ میں پاکستانی اشیا باآسانی فروخت کی جا سکتی ہیں۔ 5روزہ پروگرام ہمارے سفیر حامد اصغر خان پاکستانی ایمبیسی کے تعاون سے تشکیل دے رہے ہیں، اس میں بہت سے پاکستانی ادارے، اسکول اور ہوٹل مالکان مراکش میں اپنا کاروبار بڑھانے جا رہے ہیں۔ مراکش کے چیمبر آف کامرس اور ایکسپورٹ پروموشن والوں کے تعاون سے دونوں ممالک کے فائدے کے لئے ایک کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کے لئے صرف 50ہزار روپے پاکستان میں مراکش ایمبیسی میں جمع کرا دیں تاکہ مراکش میں ایک شہر سے دوسرے شہر میں ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم ہو سکے جبکہ آنے جانے اور ٹھہرنے کے اخراجات خود ادا کرنا ہوں گے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ رباط چیمبر آف کامرس میں ایک میٹنگ بھی پیشگی تشکیل دی جا رہی ہے تاکہ دونوں پارٹیاں آپس میں مل کر اس کو عملی جامہ پہنائیں۔ اس طرح تمام کمپنیوں کا ڈیٹا بھی لے لیا گیا۔ سیمپل وغیرہ لٹریچر، کیٹلاگ بھی ساتھ لے جانے کی ہدایت کی گئی اور یوں کراچی سے ہم کاسا بلانکا کے لئے براستہ دبئی روانہ ہو گئے۔ دبئی سے 8گھنٹے کی مسافت طے کرکے کاسا بلانکا پہنچے، وہاں سے بیگ برادران کی سربراہی میں کوچ کے ذریعے رباط ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر تھا، اپنے ہوٹل پہنچے، رات محترم جناب حامد اصغر خان نے اپنی رہائش گاہ پر پُرتکلف عشائیہ دیا، دوسرے دن ہم رباط چیمبر آف کامرس کے دفتر پہنچے، ہمارا بہترین طریقے سے استقبال خود ان کے صدر اور چیمبر کے عہدیداران نے کیا۔ ہمارے سفیر صاحب بھی بنفس نفیس موجود تھے۔ دونوں طرف سے تقاریر ہوئیں۔ تقاریر ختم ہوئیں تو پُرتکلف ظہرانہ مراکشی کھانے، سلاد، سوپ پیش کئے گئے۔ اس میٹنگ میں پاکستانی افراد جن کا تعلق ادویات، کاسمیٹکس، سرکاری ٹھیکیدار، سیمنٹ کے ادارے، اسکول، یونیورسٹی، رائس ایکسپوٹرز، فرنیچر، سامانِ کھیل سپلائر، ٹیکسٹائل، گلوز، کنسٹرکشن، آئی ٹی، ماربل، آئل وغیرہ سے تھا، شریک ہوئے۔ بعد میں مقامی اداروں سے آئے ہوئے افراد سے میٹنگ ہوئیں، مگر اس میں اکثر خود ایکسپوٹرز نکلے جو اپنی اشیا بیچنے کیلئے آئے تھے۔ اس وجہ سے ان میٹنگوں سے کسی بھی پاکستان ادارے کو کوئی آرڈر نہیں ملا، نہ اشتراک ہو سکا جس سے ہم سب بہت ناامید ہوئے۔ البتہ یونیورسٹی اور ہوٹل کے لئے انہوں نے امیدیں ضرور دلائی تھیں۔ حکومتی وعدے اکثر MOUتک محدود رہ جاتے ہیں۔ دوسرے دن انہوں نے ایکسپورٹ پروسیسنگ زون دکھایا اپنی 300کلومیٹر بجلی کی ٹرین میں بھی سیر کرائی۔سالانہ تقریباً 10لاکھ ٹورسٹ مراکش ہر سال دنیا بھر سے آتے ہیں۔ مراکش سے نکل کر ہم اسپین کے شہر بار سلونا پہنچے، بارسلونا بھی سمندر کے کنارے پر خوبصورت تفریح گاہ ہے، اگرچہ اسپن اس وقت کساد بازاری سے گزر رہا ہے، پھر بھی ٹورسٹوں کیلئے بہت Attractionہے۔ خاص طور پر ایک بہت بڑا بازار جس کا نام RAMBLAہے جو ہزاروں چھوٹی بڑی دکانوں سے بھرا پڑا ہے۔ یہاں بہت پرانے نامی گرامی کھانوں کے ریسٹورنٹس ہیں جو 100سال پرانے ہیں، بہت سی دکانوں کے مالکان کا تعلق پاکستان سے ہے۔ اگر آپ اس راملا اسٹریٹ پر نہیں گئے تو سمجھیں آپ نے اسپین کی پرانی ثقافت نہیں دیکھی۔ ایک بہت قدیم گرجا گھر ہے جس کو دوبارہ تعمیر کیا جا رہا ہے۔یہ تاریخی چرچ 1832میں تعمیر ہوا تھا، اس چرچ کے بڑے بڑے گیٹ اور ٹاور دُور سے نظر آتے ہیں۔ اس کا نام Sagarda Familia کیتھولک چرچ ہے۔ پوری دنیا سے ٹورسٹ اس چرچ کو دیکھنے آتے ہیں۔ بارسلونا سے بذریعہ کار ہم 3گھنٹے کی مسافت طے کر کے Valenciaپہنچے، یہ بھی اسپین کی تعمیری ثقافت کا آئینہ دار شہر ہے۔ یہاں کا عجائب گھر، نیشنل پارک، کشتی رانی، 3گھنٹے کا سائیکل ٹور، ڈانس شوز، پرانا ڈائون ٹائون تاریخی ٹور بھی یادگار ہوتا ہے۔ پھر یہاں سے ہم اسپین کے دارالحکومت میڈرڈ بذریعہ کار ساڑھے تین گھنٹے میں پہنچے۔ سب سے بڑی خوبی اسپین کی ہائی وے کی یہ ہے کہ یہ بہت صاف ستھری ہے اور ہر 100کلو میٹر کے بعد ٹیکس وصول کیا جا تا ہے۔ Madridایک تجارتی شہر ہے۔ یہاں سے 3گھنٹے کی مسافت پر قرطبہ شہر ہے، جہاں 800سال مسلمانوں کی حکومت رہی، اس کا نام تبدیل کرکے Cordobaکر دیا گیا ہے۔ یہاں 785میں اس وقت کے مسلمان حکمران امیر عبدالرحمٰن نے قرطبہ مسجد تعمیر کروائی تھی۔ لال پتھروں کی اینٹوں کی وجہ سے اس کی خوبصورتی آج تک برقرار ہے۔ اس کے پہلے حصے میں ایک گھنٹہ گھر ہے۔ جس میں تقریباً 40میٹر اوپر چڑھ کر گھنٹی بجائی جاتی ہے، یہاں پہلے اذان دی جاتی تھی، مسجد کے اندر ایسا سسٹم تھا کہ بغیر لائوڈ اسپیکر سارے لوگ جمعہ کا خطبہ سنتے تھے، یہ مسلمانوں کے آرٹ کی ایک نشانی تھی۔ جس کو1210میں چرچ میں تبدیل کر دیا گیا۔ اور اب صرف مسجد کا مینار اور مصلا رہ گیا ہے اور نماز پڑھنے پر بھی مکمل پابندی ہے جبکہ عیسائی عبادت گاہ کا درجہ دیکر عیسائیوں کو عبادت کی اجازت ہے۔ ہر سال مسلمانوں سمیت دنیا بھر سے لاکھوں سیاح اس مسجد کو دیکھنے کے لئے آتے ہیں۔ ہر سیاح کو 30یورو کا ٹکٹ فروخت کرکے اس چرچ کے اخراجات پورے کئے جاتے ہیں، جس میں ایک وقت میں 1لاکھ سے زیادہ نمازی ہوتے تھے۔ خصوصاً جمعہ اور عیدیں پر پورے اسپین سے مسلمان نماز کی سعادت سے مستفیض ہوتے تھے مگر آج وہ اپنی بنائی ہوئی شاندار محرابوں والی مسجد میں نماز نہیں پڑھ سکتے۔ البتہ Cordoba میں نئی مساجد بھی ہیں۔ ہم شام کو Madrid ایئر پورٹ سے لندن روانہ ہو گئے، گویا 10دن میں تین ممالک کی سیر مکمل ہو چکی تھی۔

تازہ ترین