• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

21ویں صدی کا دوسرا عشرہ بھی ختم ہو چکا ہے۔ بحیثیت پاکستانی قوم ہم نے اس عشرے سے جو توقعات وابستہ کی ہوں گی یا اہداف مقرر کیے ہوں گے، ان کے پورا نہ ہونے میں بری طرح ناکامی کے حوالے سے شاید ہم اور ہماری نسلیں طویل عرصے تک اس عشرہ کو فراموش نہ کر سکیں۔ 

یوں تو گزشتہ سات عشرے بھی ہمیں زیادہ تر مایوسیاں دے کر گئے مگر 21ویں صدی کا یہ دوسرا عشرہ ہم سے امید بھی لے گیا ہے۔ جمہوری اور سیاسی استحکام کیا آتا، اب تو سیاست بھی سیاست دانوں اور جمہور کے ہاتھ میں نہیں رہی۔ 

معاشی ترقی کیا ہوتی ہے، اب تو معیشت بھی کسی کے کنٹرول میں نہیں رہی۔ سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ ہمارا شمار ان ممالک میں ہوا ہے، جہاں آزادیٔ صحافت اور آزادیٔ اظہار کا انڈیکس قابل فخر نہیں اور جہاں بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ میں بھی ہمارا ریکارڈ تشویش ناک حد تک خراب ہے۔

پوری دنیا میں نئے ہزاریے (ملینیم) اور نئی صدی کا آغاز بہت امیدوں کے ساتھ ہوا تھا۔ خاص طور پر یہ کہا جا رہا تھا کہ یہ مشرق کی صدی ہے۔ اس صدی کے آغاز پر مشرق میں زبردست معاشی ابھار تھا۔ مغرب کے تھنک ٹینکس نے بھی یہ تسلیم کر لیا تھا کہ مغرب پر مشرق کی بالادستی کو اب کوئی نہیں روک سکتا۔ 

نہ صرف چین اور بھارت معاشی طاقتیں بن کر ابھر رہے تھے بلکہ مجموعی طور پر پورے ایشیا میں معاشی ترقی کے امکانات روشن تھے۔ پاکستان سمیت مشرق کے دیگر ممالک کے معاشی طاقت بننے کی بھی پیش گوئیاں کی جا رہی تھیں۔ ہماری بدقسمتی کہ صدی کا پہلا عشرہ ایک آمر کی حکومت سے شروع ہوا اور پاکستان کو 1979ء کے بعد یعنی ٹھیک دو عشروں بعد 1999ء میں عالمی سامراجی طاقتوں کی ایک اور جنگ میں جھونکنے کے لیے تیار کیا گیا۔ 

پاکستان میں آمر حکومت قائم کرکے ہمارے خطے میں امریکہ کے نائن الیون کے واقعہ کے لیے حالات سازگار بنا لیے گئے اور نائن الیون کے واقعہ کو بنیاد بنا کر دنیا میں نیا کھیل کھیلا گیا۔ 21ویں صدی کا پہلا عشرہ پاکستان میں جمہوریت، امن اور سیاسی آزادیوں کے لیے انتہائی تباہ کن رہا۔ 

دہشت گردی کے واقعات میں ہزاروں لوگ مارے گئے، یہاں تک کہ محترمہ بینظیر بھٹو کو بھی قتل کر دیا گیا۔ دنیا 21ویں صدی کو جمہوریت، آزادیوں اور خوشحالی کی صدی قرار دے رہی تھی اور پاکستان کی پہچان آمریت، دہشت گردی کے ذریعہ سیاسی آزادیوں کو کچلنے اور خونریزی سے ہو رہی تھی۔ 

21ویں صدی کا دوسرا عشرہ شروع ہوا تو پاکستان میں جمہوریت بظاہر بحال ہو چکی تھی اور ہم پہلی دفعہ بحیثیت قوم یہ کہہ سکتے تھے کہ ہم 21ویں صدی کے تقاضوں کے مطابق اپنے ملک کو چلانے کے قابل ہو چکے ہیں۔ اسی دوسرے عشرے میں ہم نے اپنی تاریخ کا ایک قابل فخر سنگ میل عبور کیا۔ ہمارے ملک میں پہلی مرتبہ دو جمہوری حکومتوں نے اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا ریکارڈ قائم کیا اور تیسری جمہوری حکومت کو پُرامن طور پر اقتدار منتقل ہوا لیکن سیاسی طور پر ہم اپنی تاریخ میں سب سے زیادہ کمزور ہوئے۔ سیاسی اور جمہوری عمل بے معنی ہو کر رہ گیا۔ 

سیاسی قیادت نام نہاد احتساب کی بھینٹ چڑھا دی گئی اور سیاست کو گالی بنا دیا گیا۔ اس عشرے میں معاملات سیاسی قوتوں کے ہاتھ سے نکلتے گئے اور غیر سیاسی قوتوں کی مداخلت بڑھتی گئی۔ یہ دوسرا عشرہ سیاسی قیادت کے بحران کا عشرہ تھا۔ 

قیادت کا ایسا بحران پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی پیدا نہیں ہوا۔ پرانی سیاسی قیادت کو کرپٹ کہہ کر غیر موثر بنانے کی کوشش کی گئی اور اس کی جگہ جو سیاسی قیادت لائی گئی، نہ اس کے پاس سیاسی وژن تھا اور نہ ہی خود سے فیصلے کرنے کی صلاحیت۔ یہ متبادل قیادت بھی عوام کی مایوسیوں میں اضافہ کا سبب بنی ہے۔

دوسرے عشرے میں بھی دہشت گردی کا تسلسل جاری رہا۔ میں ہمیشہ یہ بات کہتا رہا ہوں کہ پاکستان میں دہشت گردی کا سلسلہ نائن الیون سے نہیں بلکہ 80کے عشرے سے شروع ہوا تھا۔ 

2014ء میں آرمی پبلک اسکول پر حملے اور اس میں معصوم بچوں کی شہادت کا عظیم سانحہ رونما ہوا۔ اس عشرے میں کوئٹہ اور شمالی علاقہ جات میں دہشت گردی کے انتہائی خوف ناک واقعات ہوئے۔ آرمی پبلک اسکول پشاور کے واقعہ کے بعد اگرچہ دہشت گردی کے خلاف قوم نے ایک بھرپور جنگ شروع کی لیکن اب بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ دہشت گردی ختم ہو گئی ہے۔ 

بدلتے ہوئے علاقائی اور عالمی حالات میں پاکستان اس خطے کا ایک ایسا ملک ہے، جو دہشت گردی کے خطرات سے سب سے زیادہ دوچار ہے۔

معیشت کا حال بھی سب کے سامنے ہے۔ اس وقت غریب اکثریت جن حالات کا شکار ہے، انہیں بیان کرنے کے لئے کسی کا ماہر معیشت ہونا ضروری نہیں ہے۔ یہ ایسے حالات ہیں، جن میں ایک عام آدمی بھی یہ تجزیہ کرکے بتا سکتا ہے کہ ایسی معیشت افراتفری اور انتشار کا سبب ہوتی ہے۔ 

خارجی محاذ پر پاکستان جس طرح فیصلے کر رہا ہے، ان سے یہ بھرم قائم رکھنا بھی مشکل ہو گیا ہے کہ ہم اپنے فیصلے خود کر رہے ہیں۔ کوالالمپور کانفرنس میں پاکستان کی عدم شرکت کا ابھی تک اطمینان بخش سبب سامنے نہیں آیا۔ 

دوسرے عشرے میں شنگھائی تعاون تنظیم کا بھرپور طریقے سے فعال ہونا عالمی سیاست کا سب سے بڑا تاریخی وقوعہ تھا اور پاکستان اس تنظیم کا رکن ہوکر جس طرح خارجی محاذ پر اپنی خود مختاری کو مضبوط بنا سکتا تھا، اس عشرے میں اس موقع سے فائدہ نہ اٹھایا جا سکا۔ 

کسی بھی دوسرے شعبے کو لے لیں۔ کہیں بھی کوئی ایسی بات نہیں، جو ہمیں مایوسی سے نکال سکے۔ مایوسی سے کیا نکلتے، 21ویں صدی کے تیسرے عشرے میں امید کے بغیر داخل ہوئے ہیں۔ کوئی ہے جو حالات کا ادراک کرے۔

تازہ ترین