• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قائداعظم محمد علی جناحؒ نے ایمان، اتحاد اور تنظیم پر زور دیا تھا۔ آج کا پاکستان کسی بھی طور قائداعظمؒ کا پاکستان نہیں ہے۔ بدقسمتی سے پوری قوم آج متحد دکھائی نہیں دے رہی۔ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے سے تعاون کے بجائے باہم دست و گریباں ہیں۔ سیاسی محاز آرائی عروج پر ہے۔ ان حالات کی ذمہ دار حکومت ہے، اس کو بڑے دل کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا۔ مقام افسوس ہے کہ اب تک ایسا نہیں ہو سکا۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ ملک میں معاشی بحران سنگین ہو چکا ہے۔ حکومتی منصوبوں میں شفافیت کا نعرہ لگانے والے اپنے منصوبوں کی تحقیقات رکوانے کے لئے عدلیہ سے رجوع کر رہے ہیں۔ اس رویے نے حکمرانوں کو نامقبول کر دیا ہے۔ ماضی کی حکومتوں کے میگا پروجیکٹ میں کرپشن اور بدعنوانی کی نشاندہی اچھا اقدام ہے مگر انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ حکومت اپنے دور میں ہونے والے منصوبوں کی غیر جانبدار تحقیقات کی راہ میں بھی روڑے نہ اٹکائے اور قوم کے سامنے حقائق لائے جائیں۔ وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے عوامی توقعات پر پانی پھیر دیا ہے۔ عوام نے جن مسائل کے حل کیلئے انہیں مینڈیٹ دیا تھا، اس کو پامال کیا جا رہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ مہنگائی، بیروزگاری، غربت، لاقانونیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ملک کی 75فیصد سے زائد آبادی زراعت کے پیشے سے وابستہ ہے مگر اس کے باوجود حکمرانوں کی عدم توجہی سے کاشتکاروں کے مسائل میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس جدید دور میں بھی پاکستان کا کسان فرسودہ اور پرانے طریقوں سے کاشتکاری کرنے پر مجبور ہے۔ زرعی آلات اتنے مہنگے ہیں کہ کسان کی استطاعت سے باہر ہیں۔ مہنگی ہونے کے ساتھ، جعلی زرعی ادویات بھی پاکستانی کسان کا ایک بنیادی مسئلہ ہیں، سودی زرعی قرضے اور وہ بھی زیادہ شرح سود پر، کسانوں کو ان کی اجناس کی معقول قیمت نہیں ملتی۔ یہ اپنی آمدن سے اپنے روزمرہ کے اخراجات بھی پورے نہیں کر پاتے۔ فی ایکڑ پیداوار بہت کم ہے، اس سے مجموعی ملکی پیداوار بھی متاثر ہوتی ہے۔ کسی حکومت نے اپنے فیصلوں میں زراعت کو کبھی ترجیحی طور پر نہیں لیا۔ پاکستان واحد زرعی ملک ہے جہاں زرعی آلات پر بھی ٹیکس عائد ہے۔

ایک اور اہم قومی معاملہ اردو زبان کا عملی نفاذ ہے۔ وزیراعظم عمران خان پاکستانیت اور خودداریت کی باتیں تو کرتے ہیں لیکن اس اہم قومی معاملےکی طرف کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔ محض زبانی جمع خرچ سے کام لیا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی قوم روز بروز حکومت سے مایوس ہوتی جا رہی ہے۔ اردو پاکستان کی قومی زبان ہے، دنیا میں جن اقوام نے ترقی کے مدارج تیزی سے طے کئے ہیں انہوں نے ہمیشہ اپنی ثقافت اور قومی زبان کو فوقیت دی ہے۔ چین، جاپان، فرانس اور جرمنی کی روشن مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ ان ممالک کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ یہ غیر ملکی زبانوں سے مرعوب نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے میڈیکل، انجینئرنگ، کمپیوٹر سائنس سمیت دیگر جدید علوم کو اپنی زبان میں منتقل کیا۔ وطن عزیز پاکستان بھی اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک ملک میں قومی زبان اردو کو مکمل نافذ نہیں کیا جاتا۔ یکساں نظام تعلیم اور یکساں ذریعہ تعلیم جب تک اردو نہیں ہوگا، اس وقت تک کامیابی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ خوددار اور باوقار قومیں ہمیشہ اپنی قومی زبان، تہذیب و ثقافت کو سینے سے لگا کر رکھتی ہیں۔ اس کی قدر کرتی اور ان پر فخر کرتی ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں کہ ان کی وجہ سے بیرونی دنیا سے کٹ کر الگ تھلگ ہونے کا خوف ہمیں اپنی ثقافت اور زبان سے بے رخی اختیار کرنے کا درس دیتا ہو۔ اسی تناظر میں گزشتہ دنوں لاہور میں سربراہ مرکز قومی زبان پاکستان حامد انوار سے تفصیلی ملاقات ہوئی تو انہوں نے بڑے دکھ سے مجھے بتایا کہ ترقی یافتہ ممالک اپنی قومی زبان کو ہمیشہ ہر معاملے میں فوقیت دیتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ بولی اور سمجھی جانے والی زبانوں میں چینی اور انگریزی کے بعد تیسری بڑی زبان اردو ہے۔ اقوام عالم میں اس قوم کو غریب الدیار تصور کیا جاتا ہے جو اپنی قومی زبان سے محروم ہو اور کسی دوسری قوم سے مستعار شدہ یا ادھار لی جانے والی زبان پر گزارا کر رہی ہو۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے 2020سے پرائمری ذریعہ تعلیم کو انگریزی سے اردو زبان میں منتقل کرنے کا اعلان کیا تھا مگر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے حکمراں اپنے دوسرے وعدوں کی طرح اس وعدے سے بھی یوٹرن لے رہے ہیں۔ سربراہ مرکز قومی زبان نے مزید بتایا کہ اس ملک کے کروڑوں لوگ قومی زبان کا تحفظ، ہر سطح کے تعلیمی اداروں اور دفتروں میں اس کو آزادانہ استعمال کرنے کے ان کےحقوق کی بحالی چاہتے ہیں جو انہیں تاریخی، اخلاقی اور قانونی طور پر ہمیشہ حاصل رہے ہیں۔ لیکن یہ حقوق ہمیشہ غیر معمولی طور پر پامال ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے اُردو کو سرکاری زبان کا درجہ دینے کی ہدایت کی تھی۔ ہم اردو کے ان حقوق کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اُردو کو بلاتاخیر فوری طور پر نافذ کیا جائے جبکہ دیگر مقامی علاقائی زبانوں کے فروغ کیلئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں۔ آئین کے آرٹیکل 251کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں اور سپریم کورٹ کے فیصلے میں دی گئی ہدایات پر عمل کیا جائے۔ ایک غیر ملکی زبان میں لوگوں پر حکم صادر کرنا محض اتفاق نہیں ہے۔ یہ سامراجیت کا ایک پرانا اور آزمودہ حربہ ہے۔

تازہ ترین